Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ میں مہنگائی، ’خود کو گرم رکھنے پر پیسے خرچ کریں یا کھانے پر؟‘

مقامی سپر مارکیٹ میں سب سے سستا پاستہ ایک سال پہلے 0.29 پاؤنڈ کا تھا لیکن اب 141 فیصد اضافے کے ساتھ یہ رقم 0.70 پاؤنڈ تک پہنچ گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
رواں برس برطانیہ میں افراطِ زر کی شرح تین دہائیوں میں بلند ترین سطح پر ہے۔ دسمبر میں یہ شرح 5.4 فیصد پر تھی، جس کے ساتھ تنخواہوں میں کمی جبکہ کھانے پینے کی چیزوں اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا۔
اس وجہ سے لوگوں کو خوراک تک رسائی میں مشکلات کا سامنا پیش آسکتا ہے۔
مشرقی انگلینڈ میں واقع کولچیسٹر فوڈ بینک نے گذشہ برس 165 ٹن کھانا بانٹا تھا جو کہ 17 ہزار افراد کے لیے کافی ہوتا ہے۔
تاہم 2022 کے لیے فوڈ بینک کے مینیجر مائیک بیکیٹ کا کہنا ہے کہ اس بار ممکنہ طور پر انہیں مزید لوگوں میں کھانا بانٹا ہوگا۔
’ہمیں لگتا ہے 2022 میں ہم 20 ہزار افراد کو کھانا کھلائیں گے۔ اگر معاملات خراب ہوئے تو یہ تعداد 25 ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ واقعی ایک برا خواب ہے۔ بری سے بری صورتحال میں شاید لوگوں کی تعداد 30 ہزار ہو جائے۔‘
ٹرسل ٹرسٹ کی جانب سے چلنے والے اس فوڈ بینک کے لیے رقم عوام کی جانب سے خیرات کی جاتی ہے۔
یہ رقم مقامی سپر مارکیٹوں میں مختلف مقامات پر اکھٹی کی جاتی ہے۔

جو لوگ خود خیرات کرتے تھے انہیں بھی اب امداد کی ضرورت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

تاہم موجودہ اقتصادی صورتحال نے ایسے کئی افراد کو امداد طلب کرنے پر مجبور کردیا ہے جو عمومی طور پر کھانے کے پارسل نہیں لیتے۔
ہائیڈی، جن کی عمر 45 ہے، کا کہنا ہے کہ ’اکثر میں فوڈ بینک کے لیے کچھ خیرات کرتی ہوں لیکن اس بار مدد لینے کی میری باری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انہیں تقریباً ہر چیر پر قیمتوں میں اضافے کا سامنا ہے۔
’مجھے بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ بل زیادہ ہوگئے ہیں، اسی لیے میں یہاں ہوں۔‘
برطانیہ میں کئی افراد کی طرح، رواں موسمِ سرما میں ہائیڈی کو ’ہیٹنگ اور ایٹنگ‘ یعنی کھانے پر اور بجلی پر خرچ کرنے میں سے کسی ایک کو چننا ہوگا۔
’میری بجلی (کا استعمال) بڑھ گیا ہے۔ میں تقریباً 80 پاؤنڈ فی مہینہ خرچ کر رہی ہوں اور گذشتہ سال یہ رقم 40 یا 50 پاؤنڈ تھی۔‘
ٹرسٹ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ 2009 میں برطانیہ بھر میں موجود ان کے سینٹرز سے تقریباً 26 ہزار افراد تین دن کے لیے کھانا لیتے تھے۔ تاہم 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 25 لاکھ ہوگئی ہے۔
برطانیہ میں کھانے کے بارے میں لکھنے والے اور غربت کے خلاف مہم چلانے والے جیک مونرو نے گذشتہ ہفتے افراطِ زر میں اضافہ دیکھ کر کہا ہے کہ اشیائے خور و نوش کی قیمت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

بجلی کے بل میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

ان کی مقامی سپر مارکیٹ میں سب سے سستا پاستہ ایک سال پہلے 0.29 پاؤنڈ کا تھا لیکن اب 141 فیصد اضافے کے ساتھ یہ رقم 0.70 پاؤنڈ تک پہنچ گئی ہے۔
جیک مونرو کہتی ہیں کہ افراطِ زر کے اثرات کا اندازہ لگانے کا نظام ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اس میں حقیقی صورتحال، کم آمدنی والوں کے لیے قیمتوں میں اصل اضافے، فوڈ بینک کی مدد حاصل کرنے والے افراد اور لاکھوں عناصر کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔‘
فوڈ بینک کے مینیجر نے اس بات سے اتفاق کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جس طرح بھی افراطِ زر کا حساب لگایا جاتا ہے اس میں سستی اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کو نہیں دیکھا جاتا اور اس میں سینکڑوں فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔‘
جب سے حکومت نے فلاح و بہبود کی رقم کو وبا سے پہلے کے دنوں تک پہنچاتے ہوئے کم کیا ہے، کم آمدنی والے خاندان اضافی دباؤ میں ہیں۔
مینیجر کا کہنا تھا کہ ’لوگ آکر بتا رہے ہیں کہ گاڑی سے نکل کر (مدد کے لیے آگے) آنے کی ہمت بنانے میں انہیں 20 منٹ سے لے کر گھنٹے تک کا وقت لگ رہا ہے۔ انہیں کبھی اندازہ نہیں ہوا تھا کہ کبھی ضرورت پڑے گی۔ انہیں فوڈ بینک استعمال نہیں کرنا لیکن ان کی مجبوری ہے۔ وہ اپنے بچوں سے محبت کرتے ہیں۔‘

شیئر: