Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا پب جی گیم پاکستان میں قتل کی وجہ بن رہی ہے؟

18 اور 19 جنوری کی درمیانی رات علی زین جو کہ پب جی گیم کھیل رہا تھا اسے گیم کے دوران شکست ہوگئی (فائل فوٹو:ٹوئٹر)
پاکستان کے شہر لاہور میں خاتون ڈاکٹر اور ان کے تین بچوں کے قتل کا معمہ پولیس کے مطابق حل کرلیا گیا ہے۔ پورے خاندان کا قاتل کوئی اور نہیں اسی گھر کا ایک لڑکا بتایا جا رہا ہے۔ 
پولیس کے مطابق علی زین کی عمر 16 سے 18 سال کے لگ بھگ ہوسکتی ہے۔
اب تک کی تفتیش میں یہ سامنے آیا ہے کہ کاہنہ کے علاقے میں 18 اور 19 جنوری کی درمیانی رات علی زین جو کہ پب جی گیم کھیل رہا تھا اسے گیم کے دوران شکست ہوگئی۔
اس شکست کا بدلہ لینے اور اپنی قتل کرنے کی صلاحیت کو چیک کرنے کے لیے اس نے اپنے گھر والوں پر ہی پریکٹس کرنے کا فیصلہ کیا۔ 
اس مقدمے کی تفتیش کرنے والے لاہور پولیس کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور نے جمعے کے روز اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس لڑکے نے ہمیشہ اس گیم کو بہت سنجیدگی سے لیا اور یہ باتیں ہمیں دوران تفتیشں پتا چلیں۔‘
’جب بھی یہ گیم ہارتا تھا تو یہ اچانک خاموش ہوجاتا اور کھانا پینا چھوڑ دیتا اور حقیقت سے بھی زیادہ یہ پب جی گیم کو سنجیدگی سے لیتا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس رات بھی یہ گیم ہارا تھا اور اس نے کھانا نہیں کھایا۔ رات کے اڑھائی بجے یہ اٹھا اور اس نے اپنی ماں کا پستول جو کہ اس کو پتا تھا کہ کہاں رکھا ہے، وہ نکالا اور سب سے پہلے اپنی ماں کو قتل کیا۔
ایس ایس پی عمران کشور بتاتے ہیں کہ قتل کرنے کا انداز انتہائی پروفیشنل تھا۔
’اس کو پتا تھا کہ پستول کی آواز آئے گی اور لوگ آجائیں گے۔ اس نے تکیے کے اندر سے پستول کا فائر کیا جس سے کافی حد تک آواز کم نکلی۔ گھر کے اندر کے لیے تو پھر بھی یہ کافی تھی لیکن محلے والوں کے جاگنے کے لیے ناکافی تھی۔

راحیل اقبال کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اور پاکستان کے علاوہ آپ کہیں ایسی خبر نہیں سنیں گے کہ گیم سے طیش میں آکر کسی نے حقیقی زندگی میں بھونچال برپا کردیا‘ (فائل فوٹو: پب جی ایشیا)

انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’علی زین نے ماں کو قتل کرنے کے بعد اپنی دو بہنوں کو بھی اسی طریقے سے قتل کیا اور اس کا بھائی جو کہ دوسرے کمرے میں تھا وہ آواز سن کر آیا تو اس نے اسے بھی اسی طریقے سے قتل کردیا۔
’پورے خاندان کو قتل کرنے کے بعد یہ گھر کے نیچے کی منزل جو کہ اس کی والدہ کا کلینک ہے وہاں جا کر سو گیا، اور صبح جب کام والی آئی تو اس نے 15 پر کال کی اور پولیس موقع پر پہنچی۔ پولیس نے ہی اس کو کلینک سے نکالا۔‘
پولیس نے اس مقدمے کی ایف آئی آر بھی علی زین کی مدعیت میں درج کی کیونکہ پولیس کے نزدیک یہ اس گھر کا واحد بچ جانے والا فرد تھا۔ 

پولیس کو علی زین پر شک کیسے ہوا؟ 

ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور نے بتایا کہ ابتدا میں تو کسی بھی قسم کا شک اس پر نہیں تھا۔ ’پولیس تین پہلوؤں پر کام کررہی تھی۔ ایک یہ تھا کہ شاید پراپرٹی کا کوئی مسئلہ نہ ہو کیونکہ یہ گھر اور کلینک ناہید مبارک کا ہی تھا جو علی زین کی والدہ تھیں۔ دوسرا پہلو ذاتی دشمنی اور تیسرا غیرت کے نام پر قتل کا ہوسکتا تھا کیونکہ خاتون کا شوہر ان کے ساتھ نہیں رہتا۔
انہوں نے بتایا کہ ’پولیس اور فرانزک ٹیموں نے جتنے بھی شواہد اکھٹے کیے ان میں قاتل کا باہر سے آنا کسی بھی صورت ثابت نہیں ہو رہا تھا۔ حتی کہ دروازے پر فنگر پرنٹس کے نشان یا گھر میں باہر سے داخل ہونے کے جوتوں کے نشانات تک نہیں تھے۔ تو پھر بالآخر اسی بچے سے پوچھ گچھ کا فیصلہ کیا گیا۔
جب پولیس نے سنجیدگی کے ساتھ علی زین سے سوال جواب کیے تو ان کے اپنے ہی بیانات میں کئی طرح کے تضادات نے پولیس کو چوکنا کردیا۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور کے مطابق ’ان تضادات کے بعد اس کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا کہ وہ اصل بات نہ بتائے۔ اس کے بعد اس نے پستول کے بارے میں بتایا جہاں اس کی انگلیوں کے نشانات موجود تھے تو اس طرح یہ بھیانک قتل کی واردات کا اصل سرا ہاتھ آیا۔

ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور نے بتایا کہ ’علی زین نے ہمیشہ پب جی گیم کو بہت سنجیدگی سے لیا‘ (فائل فوٹو: پب جی)

کیا قتل کی وجہ پب جی گیم ہے؟ 

لاہور پولیس نے اس واقعے کے بعد آئی جی پنجاب کو ایک خط لکھا ہے جس میں سفارش کی گئی ہے کہ پی ٹی اے کے ذریعے پب جی گیم پر پاکستان میں مکمل پابندی عائد کی جائے۔ 
ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس ایسا کرنے کی ٹھوس وجوہات ہیں۔ یہ پہلا کیس نہیں ہے گذشتہ دو برسوں میں پورے پنجاب میں لگ بھگ ایک درجن اس سے ملتے جلتے واقعات سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں شک ہے کہ یہ بچہ آئس کا نشہ بھی کرتا ہے۔ ہم نے ان ایک درجن واقعات کو کھنگالا ہے۔ بہت سی چیزیں مشترکہ ہیں۔ سال 2021 میں تین بچوں نے صرف لاہور میں ایک مای کے دوران خود کشیاں کی تھیں۔ ان کی لاشوں کے ساتھ موبائل پر پب جی کھلی ہوئی تھی۔ ان میں ایک بچہ تھا جس نے صرف اس وجہ سے خود کشی کی کہ گھر والوں نے اس سے موبائل چھین لیا تھا۔
عمران کشور کے مطابق ’ایک واقعہ تو ہو بہو اس سے ملتا جلتا تھا جب ایک نوجوان نے آئس کے نشے میں اپنے ہمسائیوں کے گھر میں گھس کر سب کو قتل کردیا تھا اور وہ اپنی طرف سے پب جی کی ایک مشق کررہا تھا۔
تاہم پاکستان میں گیمز بنانے والی کمپنی گیمز سٹارم سٹوڈیوز کے سی ای او راحیل اقبال سمجھتے ہیں کہ ’کمپیوٹر گیمز کو تشدد کے ساتھ مکس کرنا درست نہیں ہے، اس حوالے سے دنیا بھر میں تحقیقات کی گئی ہیں۔ یہ ضرور ہوسکتا ہے کہ بچے کے اندر تشدد موجود ہو اور وہ کسی ذہنی کیفیت میں ایک انفرادی حرکت کرے، ہمارے ہاں مسئلے کی جڑ تک جانے کے بجائے فوری نتیجہ اخذ کرلیا جاتا ہے۔
’انڈیا اور پاکستان کے علاوہ آپ کہیں ایسی خبر نہیں سنیں گے کہ گیم سے طیش میں آکر کسی نے حقیقی زندگی میں بھونچال برپا کردیا۔
راحیل اقبال کا کہنا ہے کہ پب جی میں پاکستان کے کھلاڑیوں نے بہت نام کمایا ہے اور بڑے بڑے سنجیدہ کھلاڑی بھی ہیں، بلکہ اب تو سنا جا رہا تھا کہ پاکستان میں پب جی کا باقاعدہ ٹورنامنٹ بھی کروایا جا رہا ہے۔

پاکستان میں پب جی نے ارطغرل نامی ایک ترک کردار کو بھی متعارف کروا رکھا ہے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

’میرا ذاتی خیال ہے کہ جب تک باقاعدہ سائنسی بنیادوں پر کوئی ایسا ثبوت موجود نہ ہو گیم کو تشدد سے نہیں جوڑنا چاہیے۔
ماہر نفسیات اور ہیپنو تھراپسٹ ڈاکٹر ابراہیم سیاوش بھی سمجھتے ہیں کہ محرکات تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔
’میرے خیال میں پاکستان میں والدین بچوں کی کمپیوٹر گیمز کو اچھا نہیں سمجھتے اور بچوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑی وجہ ہو سکتی ہے کہ بچوں کے اندر غصے اور تشدد کا عنصر آجائے۔ یہ درست ہے کہ گیمز ایڈیکٹ کرتی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ حقیقی اور غیر حقیقی مناظر کو دماغ کے اندر مدغم کردیں۔

پب جی گیم کیسے کھیلتے ہیں؟ 

دنیا بھر میں کمپیوٹر گیمز جدت کی آخری حدوں کو چھو رہی ہیں اور یہ اربوں ڈالر کی صنعت میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اب زیادہ تر گیمز آن لائن اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ کے ذریعے کھیلی جاتی ہیں۔ راحیل اقبال کے مطابق ’پب جی ایک آن لائن گیم ہے جس میں ایک ہی وقت میں 50 سے زائد کھلاڑی گیم میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ گیم ایک ہی سرور پر ہوسٹ ہورہی ہوتی ہے۔ تمام کھلاڑیوں کو مختلف ٹاسک دیے جاتے ہیں اور سب کا کام ایک دوسرے کو مارنا ہوتا ہے۔ فاتح وہ ہوتا ہے جو سب کو مار دیتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ آج کل تقریباً ہر بڑی گیم ہی آن لائن آرہی ہے۔ ’آپ لڈو کو دیکھ لیں یا کسی بھی گیم کی مثال لے لیں، سب میں آن لائن جیتنے کے لیے سب ہی پرجوش ہوتے ہیں یہ گیم کا اب مستقبل ہے۔
اس گیم کو شروع کرتے ہوئے آپ اپنی مرضی کا تصوراتی کردار منتخب کرتے ہیں جو گیم کے اندر آپ کی پہچان بن جاتا ہے۔
پاکستان میں پب جی نے ارطغرل نامی ایک ترک کردار کو بھی متعارف کروا رکھا ہے۔ ماہرین کے مطابق پب جی پاکستان کو ان ملکوں کی فہرست میں رکھتا ہے جہاں اس کے سب سے سنجیدہ اور زیادہ کھلاڑی ہیں۔ 

شیئر: