Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاجواب شاعر، لاجواب شخص، ہم سے بچھڑ گئے

حسن عسکری طارق کے ساتھ کئی مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا، وہ میرے استاد تھے

- - - - - - - - - -

شوکت جمال۔ریاض

- - - -- - - - --  -

سید حسن عسکری طارق سے میری واقفیت 1975ء سے تھی جب میں سعودی عرب آیا۔ طارق صاحب تو شاید 1970ء میں ہی ریاض آگئے تھے اوربیشتر ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کی طرح حی الوزارات میں مقیم تھے۔ میرا اُن سے تعارف بڑے بھائی ابوالفرح ہمایوں صاحب کے توسّط سے ہوا جن کی طارق صاحب سے قریبی سسرالی رشتہ داری تھی۔ اکثر ملاقاتیں ہوتی تھیں۔ ان دنوں میں شاعری نہیں کرتا تھا اور نہ ادبی محافل میںآنا جانا تھا۔ طارق صاحب اُن دنوں بھی شعر کہتے ہونگے مگر انہوں نے کبھی کسی ملاقات میں شعر گوئی کا دعویٰ یا مظاہرہ نہیں کیاتھا۔ جب بھی ملتے تو اپنی بذلہ سنجی اور زندہ دلی سے محفل کو زعفران زار کئے رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد سے نہیں نوازا لیکن اس سے اُن کی خوش مزاجی اور طبیعت کی شوخی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس صورتِ حال کا اپنے انداز میںذکر کرتے ہوئے انہوں نے ایک واقعہ بیان کیاکہ ’’ میرے دفتر میں ایک مقامی نوجوان ہے جس کے والد کا انتقال ہوچکا ہے۔ اس نے میرے سامنے یہ تجویز رکھی کہ میں اُس کی والدہ سے نکاح کرلوں۔ اس طرح اس کو باپ مل جائے گا اور مجھے پلا پلایا بیٹا ۔ یعنی ایک پنتھ دو کاج۔ ‘‘ میں نے جب مزاحیہ شاعری میں ہاتھ پاؤں مارنے شروع کئے تو طارق صاحب مدینہ منورہ میں مقیم تھے اور بحیثیت مزاح گو شاعر مملکت میں کافی مقبول ہوگئے تھے۔ میں اکثر اپنا کلام اُن کے پاس نظرِ ثانی کے لئے بھیجا کرتا تھا۔ اُن دنوں ای میل یا واٹس ایپ وغیرہ تو تھے نہیں، میں اپنا کلام بذریعہ فیکس انہیں بھیجا کرتا تھا۔ فیکس اُن کے کسی دوست کی کتابوں کی دکان میں تھا۔ طارق صاحب میری خاطر یہ زحمت فرماتے کہ وہاں جا کر فیکس وصول کرتے اور جوابی فیکس یا فون پر اپنی رائے کا اظہار کردیتے۔ اس کے بعد مجھے ان کے ساتھ کئی مشاعروں میں شرکت کا موقع ملا۔ وہ میرے استاد تھے، عمر میں بھی بڑے تھے لیکن ہمیشہ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ میں اُن کے بعد پڑھوں۔ طارق صاحب1940ء میں پیدا ہوئے۔ 1962ء میں انجینیئرنگ کی اور پہلی پوسٹنگ دہلی میں ہوئی۔ ٹیلی گرافک انجینیئرنگ سروس میں 8 سال گزار کر سعودی عرب آگئے۔ پہلے سعودی ٹیلی کمیونیکیشن، ریاض میں کام کیا پھر مدینہ منورہ تبادلہ ہوگیا۔ ریٹائر ہونے کے بعد مدینہ منورہ میں ہی مقیم ہیں۔ چھَپنے سے زیادہ چھُپنے میں دلچسپی ہے۔ تواضع اور انکسار میں شہرت رکھتے ہیں۔ سعودی عرب میں طنز و مزاح کے کامیاب شاعر کی حیثیت سے متعارف ہیں۔ مذاق ہی مذاق میں کام کی بات کہنے کا بہت اچھا سلیقہ ہے۔ ان کی غزلیں اور نظمیں ہر جگہ اس سلیقہ مندی کو نباہتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ پیروڈی بہت اچھی کرتے ہیں۔ جو ’’زمین‘‘ پسند آجائے، اس پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ عصرِ حاضر کے تقریباً ہر بڑے شاعر کی زمین میں کچھ نہ کچھ کہہ رکھا ہے۔ کلیم عاجز اور فراز کو بھی ’’مشقِ سخن‘‘ بنایا ہے۔ ‘‘ نمونہ ملاحظہ ہو:

ہم اس کی ذات میں آثار شر کے دیکھتے ہیں

 اسی لئے شرفا اس کو ڈر کے دیکھتے ہیں

 سنا کہ بوڑھوں سے کچھ ربطِ خاص ہے اس کو

تو اس کو بوڑھے بہت بن سنور کے دیکھتے ہیں

سنا کہ فون پہ کرتی ہے گفتگو اچھی

تو لاؤ فون، ابھی فون کر کے دیکھتے ہیں

سنا کہ نیند میں وہ میرا نام لیتی ہے

تو اس کے پاس کوئی شب ٹھہر کے دیکھتے ہیں

٭٭٭ *

بہت دنوں سے تیری خیر اور خبر نہ ملی

بلا سے خط نہیں لکھتا مگر ڈرافٹ تو بھیج

٭٭٭ *

میاں بس فون پر ہی گفتگو اُس سے مزا دے ہے

مگر ملئے تو ایسا ڈانٹ دے ہے، دل ہلا دے ہے

 ہمیشہ میرے ارمانوں کی وہ قیمت گرادے ہے

میں رس گلّا اگر مانگوں تو مجھ کو گُلگُلا دے ہے

میں اُس کی چاہ سے بھاگا کروں ہوں کیونکہ وہ ظالم

جسے چاہے ہے اُس کو سنکھیا دے کر سلا دے ہے

 مجھے دیکھے ہے سر سے پاؤں تک اظہارِ الفت پر

ہنسی روکے ہے تھوڑی دیر اور پھر کھلکھلا دے ہے

مہذّب لوگ بھی سن کر بہت محظوظ ہوتے ہیں

 میاں طارق کی تُک بندی تو اُن کو بھی ہنسا دے ہے

شیئر: