Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ میں طویل عرصے تک جاری رہنے والے عرب آرٹ فیسٹول کی واپسی

فلم، موسیقی، ادب، پرفارمنس، کھانے اور فیملی فن سب کچھ ہوگا ( فوٹو: عرب نیوز)
دا لیور پُول عرب آرٹس فیسٹول جس میں برطانیہ میں عرب فنون اور ثقافت کو طویل عرصے سے سالانہ بنیادوں پر تقریبات کے ذریعے منایا جاتا ہے، جولائی میں شروع ہو رہا ہے۔
 اس بار اس ایونٹ کا مرکزی خیال جانا پہچانا سا محسوس ہوتا ہے۔ یہ بروقت بھی ہے اور اس خیال کو زوال بھی نہیں کیونکہ اس کا موضوع ہے’یادِ ماضی‘۔
یہ پروگرام برطانیہ میں دو دہائیوں سے جاری ہے اور گراس روٹ سطح سے بڑھ کر اب اسے بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام 20 جولائی تک جاری رہے گا۔
اس سال کے ایونٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ حافظہ اور تہذیبی ثقافت کس طرح عرب دنیا اور جا بجا پھیلے ہوئے عرب لوگوں میں فنکارانہ اظہار کی تشکیل کرتے ہیں۔
متحرک اور دو زبانوں پر مبنی پروگرام میں فلم، موسیقی، ادب، پرفارمنس، کھانے اور خاندانی مشاغل سب کچھ ہوگا جس میں عرب دنیا کی شناخت، اس کے نقصان اور ثقافتی تسلسل کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے گا۔
طاہر قاسم نے، جن کا تعلق یمن سے ہے، 1998 میں اس ایونٹ کی بنیاد رکھی تھی جس میں کمیونٹی کو سامنے رکھا گیا تھا  تاکہ ثقافتی تفاخر کو آگے بڑھایا جا سکے اور برطانیہ کے شہر لِور پُول میں عرب شناخت کو محفوظ کیا جا سکے۔
طاہر قاسم نے عرب نیوز کو بتایا  ’یادِ ماضی‘ کا موضوع اس بات کا اظہار ہے کہ ہم نے کہاں سے شروع کیا تھا اور کہاں تک آئے ہیں۔‘

طاہر قاسم نے 1998 میں اس ایونٹ کی بنیاد رکھی تھی (فوٹو: انسٹا گرام)

23 سال پہلے ہم نے ایسے راستے پر سفر کا آغاز کیا تھا جو غیر یقینی تھا لیکن اس کا ایک مقصد بھی تھا اور وہ جوش و جذبے سے بھرپور بھی تھا۔جو پروگرام ایک چھوٹی سطح سے شروع ہوا تھا آج بڑھتے بڑھتے عرب فنکاروں کا ایک پلیٹ فارم بن چکا ہے۔‘
’جو فیسٹیول ابتدا میں مرتبے میں کم تھا، آج پھل پھول رہا ہے۔ آج ہم اس پلیٹ فارم کو عرب دنیا، یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک کے فنکاروں کو پیش کرتے ہیں۔ شروع میں تو یہ بس ایک خواب ہی تھا۔
وہ کہتے ہیں’ان کے لیے دو ایونٹس بہت خاص ہیں: ایک یہ کہ ’عربوں میں مزاح نہیں‘ اور دوسرا ’دا بُک آف صنعا‘۔ پہلااس پرانی گھسی پٹی بات کو چیلنج کرتا ہے کہ عربوں میں حسِ مزاح نہیں ہوتی۔ دوسرا ادب، شاعری، کھانوں اور یمن کے تاریخی دارالحکومت کا ماڈل ہے۔
طاہر قاسم جنھیں 2008 میں برطانیہ کی طرف سے کمیونٹی کو اکٹھا کرنے پر ایم بی ای کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے، اب اس ایونٹ کی قیادت اپنی بیٹی کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔

 

شیئر: