Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’کیا ریاست صرف ایک سیاسی جماعت کی داد رسی کے لیے ہے؟‘

پاکستان کے سوشل میڈیا پر حالیہ تنازع ٹی وی اینکر غریدہ فاروقی کے شو کے کلپ کے وائرل ہونے کے بعد سامنے آیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گذشتہ روز پیر14 فروری کو لاہور سے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ایک سوشل میڈیا ورکر کو حراست میں لیا ہے۔ 
صابر ہاشمی نامی اس نوجوان پر جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے اس میں مدعی کے طورپر ریاست کا نام لکھا گیا ہے۔ ایف آئی آر کی تحریر کے مطابق ’ایف آئی اے کے چند افسران نے سوشل میڈیا پر ایسا مواد دیکھا جس میں وزیر اعظم کی توہین کی گئی ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم کے اہلخانہ اور پاک فوج کے افسران کے خلاف بھی توہین آمیز زبان استعمال کی گئی ہے۔‘
ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کا زیادہ تر مواد صابرمحمود، کامران شیروانی اور عاصم ملک نامی صارفین کی جانب سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر جاری کیا گیا اور ٹویٹر پر ٹرینڈ بھی بنائے گئے ’جو کہ اخلاقی طور پر بھی ٹھیک نہیں تھے۔‘
تاہم اس ایف آئی آر میں ان ٹویٹس یا مواد کو نقل نہیں کیا گیا کہ آخر وہ کون سے جملے تھے جن سے ریاست کو خود مقدمہ دائر کرنا پڑا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی معلومات سامنے آنے کے بعد مزید تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور ان افراد کے حوالے سے عدالت سے وارنٹ بھی حاصل کیے جا چکے ہیں۔
صابر ہاشمی نامی لیگی ورکر کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس پر عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ 
انہوں نے کہا کہ ’ایف آئی اے کو چاہیے کہ اس گرتی ہوئی حکومت کا آلہ کار بننے سے گریز کرے۔‘
اس گرفتاری کے حوالے سے اردو نیوز سے ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور ریجن ڈاکٹر رضوان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ رابطے میں نہیں آئے۔ 
تاہم منگل کو سوشل میڈیا پر چلائے جانے والے نازیبا ٹرینڈز سے متعلق وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سوشل میڈیا اور کچھ ٹی وی چینلز پر غیر مہذب زبان استعمال کی جا رہی ہے جو پاکستان کے سنجیدہ طبقہ کے لئے پریشان کن صورتحال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے لیے قانون سازی بہت ضروری ہے اور اس ضمن میں سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے اہم شخصیات بالخصوص خواتین پر الزامات اور ان کے خلاف سوشل میڈیا پر گھٹیا الزامات لگانے کے سلسلے پرگہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور اس کے تدارک کے لیے قانون سازی پر زور دیا ہے۔

عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ گالم گلوچ کا کلچر چاہے کسی کی طرف سے بھی ہو وہ قابل قبول نہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے صارفین کا ملا جلا رد عمل سامنے آیا ہے جس میں کئی لوگ یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ ایف آئی اے کا برتاؤ جانبدرانہ کیوں ہے۔ 
خیال رہے کہ پاکستان کے سوشل میڈیا پر حالیہ تنازع ٹی وی اینکر غریدہ فاروقی کے شو کے کلپ کے وائرل ہونے کے بعد سامنے آیا جس میں وفاقی وزیر مراد سعید کی دیگر وزرا کے مقابلے میں بہترین کارکردگی کے حوالے سے گفتگو کی گئی تھی۔ 
اس گفتگو کو حکومت کے تقریبا تمام وزرا نے تنقید کا نشانہ بنایا اور ٹویٹ کیے، حتیٰ کہ اس بہترین وزرا کی فہرست میں نام نہ بنا سکنے والے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایک ٹویٹ کے ذریعے اس ٹی وی شو کی گفتگو کو ہدف تنقید بنایا۔ 
اس کے بعد نیوز اینکر غریدہ فاروقی کے خلاف سوشل میڈیا پر ایسے ٹرینڈ سامنے آئے جو بد اخلاقی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس کے بعد وزیر اعظم عمران خان کے خلاف بھی رد عمل میں اسی سے ملتے جلتے ٹرینڈ بنائے گئے۔ 
پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں سوشل میڈیا پر ہونے والی ٹرولنگ کئی دفعہ سنجیدہ ایکشنز پر منتج ہوئی ہے۔ ماضی میں ایف آئی اے نے کئی صحافیوں کو گرفتار جب کہ کئی صحافیوں کو نوٹس بھیجے ہیں جن پر حکومت پر بلاوجہ تنقید کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ 
صحافی غریدہ فاروقی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’ایک نہیں دو پاکستان کی اس سے بہتر مثال نہیں ہو سکتی۔ غلیظ ٹرینڈ وزیر اعظم سے پہلے میرے خلاف بنائے گئے لیکن ریاست نے کوئی مقدمہ درج کیا اور نہ کسی کو گرفتار کیا۔ بلکہ میں تو یہ تک کہوں گی کہ میری اس وقت تک چھ درخواستیں ایف آئی اے میں پڑی ہوئی ہیں جس میں، میں نے شکایت کا اندراج کروایا ہے کہ مجھے کس طرح آن لائن ہراساں کیا گیا ہے۔ لیکن آج تک ایف آئی اے نے کوئی بھی کیس نہیں چلایا۔‘
غریدہ فاروقی نے کہا کہ ’اس بات کا جواب کون دے گا کہ ریاست صرف ایک ہی سیاسی جماعت کی داد رسی کرنے کے لیے ہے؟

غریدہ فاروقی نے کہا ’اس بات کا جواب کون دے گا کہ ریاست صرف ایک ہی سیاسی جماعت کی داد رسی کرنے کے لیے ہے؟ (فوٹو: ٹوئٹر)

’میری ایک درخواست زرتاج گل صاحبہ کے خلاف بھی دائر ہے جس کو ریاست نے ختم ہی کروا دیا ہے، ہم کس کے پاس جائیں؟‘
یاد رہے کہ پاکستان کی خاتون صحافیوں کی ایک بڑی تعداد نے ستمبر 2020 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی کہ ان کو سوشل میڈیا پر ٹرول کیا جاتا ہے اور یہ کہ زیادہ تر ٹرولز کا تعلق حکمراں جماعت سے ہوتا ہے۔ 
ان ہی درخواست گزاروں میں سے ایک ممتاز صحافی عاصمہ شیرازی بھی تھیں۔ انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’گالم گلوچ کا یہ کلچر چاہے کسی کی طرف سے بھی ہو وہ قابل قبول نہیں۔ لیکن اسی طرح یہ بھی قابل قبول نہیں کہ صرف ایک شخص کے خلاف بات کرنے پر آپ کے خلاف ریاست کھڑی ہو جائے۔ یہ تو ایسے ہی جیسے آپ ایک اور مقدس گائے بنا رہے ہیں۔ میں نے تو ایف آئی اے میں درخواست اس لیے بھی کبھی نہیں دی کیونکہ میں پیکا کے اس قانونی کو بنیادی انسانی حقووق کی خلاف ورزی سمجھتی ہوں۔ جس قانون کا اطلاق سوشل میڈیا پر زبان بندی کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔‘
کیا صرف حکومتی عہدیدران کے خلاف کی گئی بات ہی قانون کی گرفت میں آئے گی اس حوالے سے اردو نیوز نے پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم اس موضوع پر بات کرنے کے لیے وہ بھی دستیاب نہیں تھے۔ 
دوسری طرف عدالت نے ایف آئی اے کی طرف سے صابرہاشمی کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔

شیئر: