Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہجوم کے تشدد سے ہلاکت: ’مشتاق سردی سے بچنے کے لیے مسجد میں داخل ہوا‘

پولیس اہلکار کے مطابق مشتعل ہجوم کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہ تھا۔ فوٹو: روئٹرز
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال میں توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے تشدد سے شہری کی ہلاکت نے ایک مرتبہ پھر قانون کو ہاتھ میں لینے کی روش پر ملک بھر میں غم و غصہ دکھائی دے رہا ہے۔
حکومت نے واقعہ کی انکوائری کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دی ہے جو ہر پہلو سے تفتیش کر رہی ہے جبکہ شناخت کیے گئے ملزمان کو عدالت نے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔
جیسے جیسے اس واقعہ سے متعلق تفصیلات سامنے آ رہی ہیں اس کی سنگینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔  
واقعہ ہوا کیسے؟  
ہجوم کے ہاتھوں شہری کی ہلاکت کا یہ واقعہ سنیچر 12 فروری کی شب سات بجے کے قریب ضلع خانیوال کی تحصیل میاں چنوں میں پیش آیا۔ عینی شاہدین کے مطابق 17 والا موڑ نامی گاؤں کے باہر موجود مسجد سے مغرب کی نماز کے بعد نمازیوں کے نکل جانے کے بعد شور کی آوازیں آئیں۔  
گاؤں 17 والا موڑ سے تعلق رکھنے والے ایک شہری محمد رزاق (فرضی نام) نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ شخص صبح سے اس گاؤں میں موجود تھا اور بھیک مانگ رہا تھا کبھی غائب ہو جاتا کبھی پھر آجاتا۔ کچھ لوگوں نے اسے مالٹے کھاتے بھی دیکھا۔ اس سے پہلے یہ کبھی ادھر نظر نہیں آیا تھا۔‘  
انہوں نے بتایا کہ ’شام کے بعد یہ شخص مسجد سے تھوڑی دور ایک دکان پر گیا اور وہاں کچھ دیر بیٹھا رہا اور اس نے دکان دار سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس آگ کا انتظام ہے کیونکہ اسے سردی لگ رہی ہے۔ دکاندار نے اسے بتایا کہ وہ دکان بند کر کے جا رہا ہے اور آگ نہیں ہے۔ تو یہ شخص بھی وہاں سے نکل گیا۔ اس کے بعد اس کو مسجد کی طرف جاتے ہوئے دیکھا گیا۔‘  

پولیس نے مقتول کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

محمد رزاق کے مطابق ’اس کے مسجد کے اندر جانے کے کوئی دس منٹ بعد مسجد سے دھواں نکلتے دیکھا گیا۔ کچھ لوگ مسجد کے اندر گئے تو اس شخص کو مارتے ہوئے باہر لائے۔ ہمیں نہیں پتا کہ اندر کیا ہوا لیکن اس پر تشدد کرنے کے بعد اس کو مسجد کے اندر ہی بند کر دیا گیا۔‘  
اس کے بعد لوگوں کی ایک بڑی تعداد مسجد کے باہر اکھٹی ہو گئی اور اسی دوران پولیس کو بھی 15 پر اطلاع کر دی گئی۔ عینی شاہدین کے مطابق ابتدائی طور پر صرف تین پولیس اہلکار تھانہ تلمبہ (قریب ترین قصبہ) سے پہنچے۔ بپھرا ہجوم دیکھ کر انہوں نے مزید نفری منگوائی۔ تھانہ صدر خانیوال کے ایس ایچ او اقبال شاہ بھی نفری کے ہمراہ وہاں پہنچے تو ہجوم نے ان پر بھی حملہ کر دیا۔  
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اقبال شاہ نے بتایا کہ ’ہمیں وائر لیس پر اطلاع ملی کہ 17 والا موڑ میں لوگ کسی شخص کو مار رہے ہیں۔ میں نفری لے کر وہاں پہنچا تو سینکڑوں کی تعداد میں مشتعل لوگ موجود تھے۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ مسجد میں بند شخص کو کسی طریقے سے نکال لیا جائے۔ اس وقت تک اس کی شناخت کا بھی کسی کو پتا نہیں تھا۔ لیکن میری یہ کوشش ناکام ہوئی اور ہجوم نے مجھ پر بھی حملہ کر دیا۔ مجھے اہلکاروں نے ہجوم کے چنگل سے نکالا۔‘  
انہوں نے بتایا کہ پولیس کی مزید نفری کی ضرورت تھی لیکن مزید نفری کے آنے سے پہلے ہجوم نے اس شخص کو ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو درخت پر لٹکا دیا۔  
ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت
واقعے کے چند گھنٹے کے بعد تک ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت نہیں ہو سکی۔ رات نو بجے کے قریب پولیس اس کی لاش کو ریکور کرنے میں کامیاب ہوئی جس کے بعد لاش کو تھانہ تلمبہ لایا گیا۔ بعد ازاں اسے پوسٹ مارٹم کے لیے ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال خانیوال منتقل کر دیا گیا۔  

مقتول کے بھائی نے بتایا کہ مشتاق کی ذہنی صحت علاج کے بعد بھی ٹھیک نہ ہو سکی تھی۔ فوٹو: روئٹرز

تھانہ تلمبہ کے ایس ایج او منور گجر کے مطابق ’رات 11 بجے کے قریب اس شخص کی شناخت مشتاق کے نام سے ہوئی۔ اس کے بعد ہم نے ان کے گھر والوں سے رابطہ کیا اس کے بھائی ذوالفقار کو بلا کر شناخت کروائی اور ایف آئی آر کا اندراج کیا گیا۔‘  
خیال رہے کہ پولیس نے اس واقعے کی دو ایف آئی آر درج کی ہیں ایک مقدمہ مقتول مشتاق پر درج کیا گیا ہے جس میں ان پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ جبکہ دوسرا مقدمہ پولیس نے ان کے قتل کا ایس ایچ او کی مدعیت میں درج کیا ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی لگائی گئی ہیں۔  
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مقتول کے بھائی نے بتایا کہ ’مشتاق ذہنی مریض تھے اور ہمیں ہر وقت ان کی فکر لاحق رہتی تھی۔ ان کے دو بیٹے ہیں۔ بھائی کی ذہنی صحت خراب ہونے کی وجہ سے طلاق ہو چکی تھی۔ ہم نے ان کا علاج کروانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ صحت یاب نہیں ہو سکے۔ ہم نے ان کی صحت سے متعلق پورا ریکارڈ بھی پولیس کے حوالے کیا ہے۔ ہمارے بھائی کے ساتھ بہت زیادتی کی گئی ہے۔‘  
سیالکوٹ واقعہ سے مماثلت
پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کا یہ واقعہ کوئی نیا نہیں۔ گزشتہ چند مہینوں میں پیش آنے والا یہ دوسرا واقعہ ہے۔
گزشتہ سال دسمبر میں پنجاب کے ہی شہر سیالکوٹ میں ہجوم نے سری لنکن شہری پریانتھا کمارا جو ایک فیکٹری میں مینیجر تھے ان پر توہین کا الزام لگا کر نہ صرف انہیں تشدد کر کے ہلاک کیا گیا بلکہ ان کی لاش کو بھی جلا دیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق تمام مرکزی ملزمان کو فوٹیجز سے شناخت کر کے ہی گرفتار کیا گیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

پولیس کے مطابق اس کیس کے تمام مرکزی ملزم گرفتار ہیں جبکہ مقدمے کا چالان بھی عدالت میں پیش کر دیا گیا اس کا ٹرائل ہونا ابھی باقی ہے۔  
ضلع خانیوال میں پیش آنے والے حالیہ واقعے اور سیالکوٹ واقعہ میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ دونوں واقعات میں پولیس کے اہلکار موقع واردات پر موجود تھے لیکن وہ ہجوم سے بات چیت کرنے سے قاصر تھے۔ اسی طرح دونوں واقعات میں قتل کرنے کے باوجود لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔  
عینی شاہدین کے مطابق جب مشتاق کو قتل کیا گیا تو مشتعل ہجوم میں لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے مختلف آوازیں بلند ہوئیں۔
پولیس نے جس طرح سے واقعے میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا وہ بھی سیالکوٹ واقعہ کے ملزمان کی گرفتاری سے مماثلت رکھتا ہے۔
پولیس کے مطابق تمام مرکزی ملزمان کو ان کے موبائل فونز سے بنائی گئی فوٹیجز سے شناخت کر کے ہی گرفتار کیا گیا ہے۔  

شیئر: