Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہروں کی دلہن، سسرال کے مظالم کا شکار

کلفٹن و ڈیفنس کے مکین کیا جانیں کہ گوجر نالے جیسے علا قو ں میں شب و روز کیسے بسر ہوتے ہیں

*تسنیم ا مجد ۔ ریاض*

عروس ا لبلا د یعنی منی پاکستان جس کی آبادی دو کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے یہ اب دلہن نہیں رہا بلکہ یوں لگتا ہے سسرا ل کے مظا لم کا شکار ہو چکا ہے۔کچرے کے ڈھیروں کی شکل میں اس کے حسن کو گہناد یا گیا ہے۔ اس میں بسنے والے منوڑہ سے لیکر لنڈی کو تل تک کے ہر شہر، گاؤں ، گو ٹھ ،قصبے کے رہا ئشی حیرا ن و پریشا ن یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ اب اس کی حالت اس دلہن کی سی ہے جو شوہر کے ہوتے ہوئے بھی بیوہ کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کر دی جا تی ہے۔

آج ہم اپنے ماضی پر فخر کرنے اور حال پر رونے کو مجبور ہو چکے ہیں۔ ہم اس تہذیب سے وابستہ ہیں جس نے دوسروں کو سلیقۂ حیات سکھا یا، سب کو بتایا کہ دنیا میں بودو باش کے معیاری انداز کیا ہیں ، تہذیب و تمدن کے داعی ہم ہیں۔ دوسری اقوام نے اوج ثریا کو چھونے کا وتیرہ ہم سے مستعار لیا اورہمارے لئے ہی مثال بن گئے ۔صفائی ستھرائی، ازل سے ہمارا طرہ امتیاز ہے مگر اسے اغیار نے اپنایااور اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا۔ہم نے مغرب کی پیروی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اپنی روایات سے منہ موڑ لیا ۔ کیچڑسے لتھڑے ماحول کے باسیوں کو کیا پتا کہ آداب زندگی کیا ہیں؟ سچ یہ ہے کہ آج عوام کا رحجان سیاست کی طرف مائل ہو چکا ہے۔ایک سیاسی جماعت کے حما یتی دوسری جماعت کی ناکامی کے لئے مختلف منصوبوں پر اپنی توانا ئیا ں ضائع کرتے ہیں ،اقتدار ہی مقصد حیات رہ گیا ہے۔ کاش کسی طرح اس ذہنی تناؤ اورکشا کشی کا تدارک جلد ممکن ہو سکے۔

ماحولیات کے تئیں بیداری لانے والی عالمی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ماحول کی صفائی انسانی زندگیوں کی بقاء کے لئے ضروری ہے۔ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو بیماریاں مزید حملہ آور ہو سکتی ہیں ۔ فضا تو پہلے ہی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے د ھوئوں سے آلودہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امراض قلب ، دمہ اور پھیپھڑوں کے سرطان جیسی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ بااختیارطبقہ اپنی معاونت کے لئے مقامی حکومتوں اور خود مختار اداروں کو ذمہ داری سونپتا ہے ۔اگر اس ضمن میں لا پروائی بر تی جائے تو جواب طلبی ہوتی ہے ۔ان کی حیثیت گاڑی کے پانچویں ٹا ئر یعنی ’’اسٹپنی ‘‘ کی سی ہے۔وطن عزیز میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ شہرکراچی کا حسن آج اپنوں سے چیخ چیخ کر سوال کرتا سنائی دیتا ہے کہ میرے ماضی کی رفعتیں مجھے لوٹا د و ،میرا حا ل ماضی جیسا کیوں نہیں چھوڑا ؟اے کاش ! ’’کو ئی لوٹا دے مرے بیتے ہوئے دن‘‘۔

اصولی طور پر جمہوریت عوام دوست ہوتی ہے، حکومتی پالیسیاں بناتے ہوئے عوام کی بہبود کا خیا ل رکھا جاتا ہے لیکن ا فسوس ہم صرف اشرافیہ کے تحفظ اور ان کے مفاد کو ترجیح د یتے ہیں جبکہ عوام کی اکثریت استحصال کا شکار ہے ۔ بالا دست طبقے کی زندگی آسان سے آسان تر اور غریب عوام کی زندگی بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ آزاد ہو کر بھی وہ روٹی، کپڑا، مکان‘‘ کی سوچ سے باہر نہیں نکل سکے ۔ ان کا شعور دو وقت کی روٹی کے حصول میں ہی اس قدر الجھ کر رہ گیا ہے کہ انہیں باقی کچھ ہوش ہی نہیں رہا۔اپنے ماحول کے بارے میں سوچنا تو دور کی بات، یہ ماحول اور شخصیت کے با ہمی انحصار کو سبھی جانتے ہیں ۔ نسل نو کو ٹیکنالوجی میں الجھا د یا گیا ہے تاکہ وہ اپنے ماضی میں نہ جھانک سکے بلکہ جو مل رہا ہے، اسی پر اکتفا کر لے۔ شاعر نے ایسی ہی صورت حال کے لئے کہا ہے کہ:

  دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے

  نگاہوں میں نہ ہوں پیدا اگر انداز آفاقی

عوام بھی خود احتسابی سے کام لیں تو صورت حا ل بہتر ہو سکتی ہے ۔ ہم رسم و رواج میں بری طرح الجھ چکے ہیں اور ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے ہیں ۔ مہندی ، ڈھولکی ، اُبٹن،شادی اور نجانے کون کون سے عنوانات کے تحت بیاہ پر بے بہا اخراجات کئے جاتے ہیں۔ اگر خوش قسمتی سے حکومت نے ان اخراجات کوقوانین کے ذریعے روکنے کی کو شش کی ہے تو پھر اس پر عملدرآمد کیوں نہیں کیاجاتا؟ حال ہی میں منعقدہ گیدرنگ میں ایک خاتون بصدرعونت بتا رہی تھیں کہ ہم اپنے بھائی کی بارات ہاتھی پر لے جانا چاہ رہے تھے لیکن چڑیا گھر والوں کو اجازت ہی نہی ملی بہر حال ہم نے اور کئی طریقے اپنا کر اپنے شوق پورے کئے۔ سارے لوگ دنگ رہ گئے کہ ایسی شادی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

خرچہ بھی کر وڑ وں تک پہنچ گیا تھا۔سبھی باراتیوں کے گلے میں نوٹوں کے ہار تھے جبکہ دولہا کو طلا ئی مالائیں پہنائی گئی تھیں۔ اسی طرح ولیمے پر 7 ستارہ ہوٹل کے واؤچر دیئے گئے تھے اور بظا ہر قانون کے مطا بق ہی کھلا یاپلایا گیا تھا۔ اس طرح شان بر قرار رہی۔کیا کریں برادری میں ’’شملہ اونچا‘‘ جو رکھنا تھا۔ اس سے پہلے کی رسموں کا تو کچھ نہ پو چھیں۔ ایسی ایسی جو کسی نے نہ دیکھیں اور نہ سنیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ قصور کس کا ہے ؟ کیا محکمہ میو نسپلٹی کا کوئی ذمہ دار نہیں ، بھتے کے بل پر ہر کوئی اپنی من مانی پہ تلا ہے ۔

دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر ہماری بے حسی کی غمازہے۔ کراچی کے علاقے اورنگی ٹائون میں اپنی مد د آپ کے تحت اورنگی پائلٹ پرا جیکٹ شروع کیا گیا۔ وہاں لوگوں نے اپنے گھروں کے باہر گندے پانی کے نکاس کیلئے نالیاں خود بنائیں۔ اس کے علاوہ علاقے کی صفائی و خوبصورتی کے لئے حتی ا لامکا ن کوششیں کی گئیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وطن میں صرف صاحبانِ ثروت کو ہی زندہ رہنے کا حق ہے ۔یہ جب کبھی عام جھام افراد یعنی عوام کی بھیڑ میں سے گزرتے ہیں تو سڑکوں پر ٹریفک روک دی جاتی ہے اور اس سے پہلے سڑکوں کو مانجھنے کی حد تک چمکا یا جاتا ہے پھر رہی سہی گرد بھی چھڑ کا ؤ سے بٹھا دی جاتی ہے کہ کہیں صاحب کی قیمتی زندگی کے لمحات کو ضیاع کے خد شات لا حق نہ ہو جائیں۔

ایسے حالات میں ذرا سوچئے کہ کلفٹن و ڈیفنس کے مکین کیا جانیں گوجر نالے جیسے علا قو ںمیں شب و روز کیسے بسر ہوتے ہیں؟ ماضی قریب میں ہی ہم نے ایک مہتر سے ایسا کرنے پر استفسا ر کیا تو وہ کہنے لگا کہ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو نوکری سے نکال دیئے جائیں گے ۔یہ احکام اوپر سے ہی جاری ہوتے ہیں۔ واہ کیا کہنے ان اوپر والے بڑے صاحبا ن کے ،ان کے راستے میں ایمبولینس بھی آ جائے تو اسے رکنا پڑتا ہے ۔ان حالات میں لوگوں کی علمی اور ذہنی پسماندگی کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ صاف ماحول ،اچھی صحت اور سوچ کی شگفتگی کا باعث ہے ،ہمارے بچے جب صبح صبح ایسی گندی راہداریوں سے گزر کر تعلیمی اداروں میں جائیں گے تو ان کی شخصیت پر کیا اثر پڑے گا؟ایسے علا قے کے ایک باسی کا کہنا ہے کہ ہم نے بحرانوں کی یلغار میں صفائی ستھرائی کی طرف توجہ دینی چھوڑ دی ہے۔گھر سے نکلنے والے شام کو روزی روٹی کا بند وبست کر کے زندہ سلامت گھر لوٹ آئیں تو یہی کیا کم ہے؟

شیئر: