Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صدر پوتن نے یوکرین جنگ ختم کرنے کے لیے شرائط پیش کردیں

روس کے صدر ولادییمیر پوتن نے یوکرین پر حملے روکنے کے لیے شرائط پیش کر دی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی صدر کے ساتھ طویل ٹیلیفونک گفتگو میں صدر پوتن  کا کہنا تھا کہ یوکرین کی ڈی ملٹرائزئشن اور مغرب کی جانب سے کریمیا پر روس کی حاکمیت کو قبول کرنے کی پیشگی شرط پر روس یوکرین پر حملہ روک دے گا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے بعد سے اب تک پانچ لاکھ لوگ یوکرین چھوڑ چکے ہیں۔
پیر کو ہی روس اور یوکرین کے مذاکرات کار جنگ شروع ہونے کے بعد پہلی دفعہ ملے۔ تاہم پہلا راؤنڈ دونوں فریقین کی جانب سے مذاکرات کا دوسرا دور جلد شروع کرنے کے اتفاق پر احتتام پذیر ہوا۔
دوسری جانب روس نے یورپی ممالک اور کینیڈا سمیت 36 ممالک کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پیر کو روس کی سرکاری ایوی ایشن ایجنسی کی جانب سے یہ اقدام یورپی یونین اور کینیڈا کی جانب سے یوکرین پر ماسکو کے حملے کے بعد روسی طیاروں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے کے جواب میں کیا گیا ہے۔
سرکاری ایوی ایشن ایجنسی کے مطابق ان ممالک کے طیارے خصوصی اجازت نامے کے بعد ہی روس کی فضائی حدود میں داخل ہو سکتے ہیں۔
قبل ازیں روسی افواج نے یوکرین کے دو جنوب مشرقی شہروں اور ایک نیوکلیئر پاور پلانٹ کے قریبی علاقے پر قبضہ کر لیا۔ روئٹرز نے پیر کو انٹرفیکس نیوز ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ دوسرے مقامات پر روس کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔

روس نے یورپی ممالک اور کینیڈا سمیت 36 ممالک کے لیے اپنی فضائی حدود بند کر دی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب روس کے بارڈر کے قریب ہونے والے مذاکرات میں ’جنگ بندی اور روس کے فوری انخلا‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق یوکرین کے صدارتی دفتر کے پیر کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ یوکرین کا وفد آج بیلا روس یوکرین بارڈر پر روسی نمائندوں سے مذاکرات کے لیے پہنچا۔ ان مذاکرات کا بنیادی نکتہ فوری جنگ بندی اور روسی فوجیوں کا یوکرین سے انخلا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے حوالے سے اے ایف پی نے اطلاع دی ہے کہ اس میں تمام 193 ارکان اپنی رائے کا اظہار کریں گے کہ آیا وہ اس قرارداد کی حمایت کرتے ہیں جس میں ’روس کی بلااشتعال جارحیت‘ کی مذمت اور فوجیں نکالنے کے مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ خصوصی سیشن بہت نایاب ہے اور غیرمعمولی حالات میں ہی بلایا جاتا ہے۔ تاریخ میں یہ 11 ویں مرتبہ ایسا ہو رہا ہے کہ یہ ہنگامی اجلاس بلایا گیا ہے۔
اس حوالے سے سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ اس اجلاس کو دنیا میں جمہوریت کے بیرومیٹر کے طور پر بھی دیکھا جائے گا، جہاں آمرانہ جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے، ان کا اشارہ میانمار، سوڈا، مالی، برکینہ فاسو، وینزویلا، نکاراگ اور یقینی طور پر روس کی طرف تھا۔
آج کا اجلاس دس بجے شروع ہو گا، آغاز میں اسمبلی کے صدر عبد اللہ شاہد اور سیکریٹری جنلر انونیو گٹرز خطاب کریں گے۔
یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بہت سے ممالک اس پر بات کریں گے جبکہ قرارداد پر ووٹنگ کا مرحلہ شاید منگل سے قبل مکمل نہ ہو۔

روس افواج نے یوکرین کے دو جنوب مشرقی شہروں پر قبضہ کر لیا ہے (فوٹو: روئٹرز)

قرارداد لکھنے والوں کو امید ہے کہ 100 کے قریب ووٹ حمایت میں آ سکتے ہیں جبکہ یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کچھ ممالک جیسے شام، چین، کیوبا اور انڈیا روس کی حمایت کر سکتے ہیں یا پھر قرارداد کی حمایت سے گریز کر سکتے ہیں۔
علاوہ ازیں اے ایف پی نے یہ بھی بتایا ہے کہ کیئف کی درخواست پر پیر کو جنیوا میں مباحثے کے حق میں 47 میں سے 29 ووٹ پڑے۔ پانچ ممالک نے اس کے خلاف ووٹ دیے جن میں روس اور چین شامل ہیں، جبکہ 13 نے کسی قسم کی رائے دینے گریز کیا۔
روس نے 24 فروری کو یوکرین پر وسیع پیمانے کا حملہ کیا تھا، روسی صدر نے ملک کے اطراف میں فوجیں تعینات کر رکھی تھیں جن میں جہاز اور بحری جہاز بھی شامل تھے۔

یوکرین میں دنیا کا سب سے بڑا جہاز تباہ

یوکرین پر حملے کے چوتھے روز روس نے یوکرین کے دارالحکومت کیئف کے نواح میں دنیا کے سب سے بڑے جہاز کو تباہ کردیا ہے۔ جہاز گوستومل کے ایئرپورٹ پر موجود تھا، جو دارالحکومت سے تقریباً 20 کلومیٹر پر واقع ہے.

روسی افواج کے حملوں کا نشانہ بننے والا ’ماریہ‘ نامی جہاز دنیا کا سب سے بڑا کارگو جہاز تھا (فوٹو: اے ایف پی)

تباہ ہونے والے جہاز کا نام ’ماریہ‘ تھا جس کا یوکرینی زبان میں مطلب خواب بنتا ہے۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دمیترو کولیبا نے اتوار کو ٹویٹ میں لکھا ’ماریہ، اے این 225 دنیا کا سب سے بڑا جہاز تھا۔ روسی اس کو تباہ کر سکتے ہیں مگر ہمارے یورپ کی آزاد، مضبوط اور جمہوری ریاست بننے کے خواب کو تباہ نہیں کر سکتے، ہم غالب آئیں گے۔‘
یوکرینی ادارے کا اندازہ ہے کہ جہاز کی مرمت پر تین ارب ڈالر کا خرچہ آئے گا اور اسے اڑنے کے قابل بنانے میں پانچ سال سے زائد کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
یہ جہاز بنیادی طور پر روس کے ایروناٹیکل پروگرام نے ہی تیار کیا تھا اور اس نے 1988 میں اپنی پہلی پرواز بھری تھی۔
اس جہاز کو یوکرین کی انتونو ایئرلائنز کمپنی استعمال کرتی ہے اور کارگو مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ کورونا کی وبا پھوٹنے کے بعد پچھلے کچھ سالوں کے دوران اس جہاز کی بہت ڈیمانڈ تھی۔

یوکرین پر حملے کے خلاف مظاہرے ’روس واپس جاؤ‘

دوسری جانب کئی ممالک میں اتوار کو روسی حملے کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے۔

کئی ممالک میں یوکرین پر روسی حملے خلاف مظاہرے بھی ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

دنیا بھر کے کئی ممالک میں اتوار کو روس کے یوکرین پر حملے کے خلاف احتجاج ہوا۔ یوکرین کے جھنڈے والے کپڑے پہنے لوگ سڑکوں پر نکلے، جن پر ’تیسری عالمی جنگ نہیں چاہیے‘ اور ’روس واپس جاؤ‘ کے نعرے درج تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برلن سے بغداد اور واشنگٹن سے سینٹ پیٹرسبرگ تک ہونے والے احتجاج میں روسی صدر پوتن کے خلاف بھی نعرے لگائے گئے۔
برلن کی پولیس کا کہنا ہے کہ شہر میں ایک لاکھ لوگوں نے احتجاج کیا، اسی طرح پراگ میں 70 ہزار جب کہ ایمسٹرڈم میں 15 ہزار لوگوں نے احتجاج کیا۔
برلن میں احتجاج کرنے والوں کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ مظاہرین کی تعداد پولیس کی جانب سے بتائی جانے والی تعداد سے پانچ گنا زیادہ تھی۔ مظاہرین نے روس کی ایمبیسی پر پتھراؤ بھی کیا۔
پتھراؤ کے وقت ایمبیسی میں روس کے سفیر موجود تھے تاہم عمارت کو پولیس نے گھیرے میں لے رکھا تھا۔
مظاہرین نے یوکرین کے حق اور روس کے خلاف نعرے لگائے۔
مظاہرے میں شریک 49 سالہ ہینس جیورگ کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت ضروری ہے کہ دنیا کو دکھایا جائے کہ جرمنی یورپ میں جمہوریت کے ساتھ کھڑا ہے۔

روسی حملہ، بائیڈن آج اتحادیوں سے مشاورت کریں گے

امریکی صدر جو بائیڈن آج اتحادیوں کو ٹیلی فون کال کریں گے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق ’کال میں روس کے حملے کے بعد بننے والی ’صورت حال‘ اور ’تعاون و مشترکہ ردعمل‘ کے حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔‘

امریکی صدر جو بائیڈن آج اتحادی ممالک سے مشاورت کریں گے (فوٹو: اے ایف پی)

وائٹ ہاؤس کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ ٹیلی فون کال میں کون کون شریک ہو گا۔
خیال رہے روس کے صدر پوتن نے اتوار کو ایک اہم میٹنگ میں وزیر دفاع اور آرمی چیف کو نیوکلیئر فورسز کو ہائی الرٹ رکھنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔
روس ایٹمی ہتھیار رکھنے والا دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔
امریکہ نے روسی صدر کے اقدام کو’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ولادیمیر پوتن یوکرین کے خلاف ’مزید جارحیت‘ کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔

شیئر: