Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

باہر رہنے والا بہت مجبور ہوتا ہے ،اسے ’’غریب الدیار ‘‘ کہاجاتا ہے،انجینیئرنیاز احمد

پولیمر پیٹرولیم آئل سے ہی لیاجاتا ہے ، مشرق وسطیٰ میں پیٹرولیم کے طلبہ کیلئے کافی مواقع ہیں،بہت جلد گاڑیوں کی پوری باڈی عمارتوں ،ہوائی جہاز ،راکٹس اور انجن میں بھی مکمل طور پر پولیمر نظر آئے گا

 انٹرویو :مصطفی حبیب صدیقی

( باہر رہنے والا بہت مجبور ہوتا ہے،وہ تنہا ہوتا ہے،اکثر اپنے ملک خالی ہاتھ ہی جاتا ہے،میکینکل انجینیئرنگ کو ’’کنگ آ ف ٹیکنالوجی‘‘ کہا جاتا ہے یہ باتیں ہم سے جدہ میں کئی برس سے مقیم پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے انجینیئر نیاز احمد نے کیں۔گفتگو کی ابتدا تو مکینیکل اور کیمیکل کے موضوع سے ہوئی تاہم جذبات بھی شامل ہوتے چلے گئے ۔انجینئر نیاز احمد نے این ای ڈی یونیورسٹی کراچی سے میکینیکل میں بی ای کیا ہے جبکہ شاہ فہد یونیورسٹی جدہ سے ماسٹرز کیا ہے۔انجینئر نیاز احمد کا بنیادی تعلق تحقیق کے شعبے سے ہے۔)

*اردونیوز:سب سے پہلے تو یہ بتائیے گا کہ آپ نے انجینئرنگ کیلئے مکینیکل کا ہی شعبہ کیوں منتخب کیا؟

*انجینئر نیاز احمد:سب سے پہلے میں آپ کا اور اردونیوز کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوںکہ آپ نے اتنا سود مند سلسلہ شروع کیا۔آپ کا سوال ہے کہ میں نے مکینیکل انجینئرنگ کو ہی کیوں منتخب کیا۔ میکینکل انجینئرنگ کو ’’کنگ آف ٹیکنالوجی ‘‘ قرار دیاجاتا ہے۔یہ شعبہ بہت وسیع ہے۔ایک مکینیکل انجینئرالیکٹریکل ،سول یا آئی ٹی سمیت انجینئرنگ کے کسی بھی شعبے میں جاسکتا ہے۔یہی سوچ کر میں نے اس شعبے میں قدم رکھا کہ عملی زندگی میں بہت فائدہ مند ہوگا۔

*اردونیوز:آپ کیا اور کس قسم کی تحقیق کرتے ہیں؟

*انجینئر نیاز احمد:میں پولیمر ایپلیکیشنز پر تحقیق کرتا ہوں جس میں مختلف پلاسٹک جیسے پولیتھن جسے عام طو رپر پلاسٹک کہاجاتا ہے اسی طرح پولی پراپلین ،پرولیمائڈ سمیت مختلف پولیمر پر تحقیق کرتے ہیں۔اصل میں یہ کیمیکل انجینئرنگ کا شعبہ ہے ۔اس میں میکینک مکینیکل پراپرٹیز کا احاطہ کرنے کیلئے میکینکل انجینیئر کا عمل دخل ہے ۔مگر میں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر ا س شعبے سے منسلک کیا ہے اسلئے میں مکینیکل کے علاوہ کیمیکل اور کیمسٹری کے شعبے کو بھی دیکھ رہا ہوں۔پولیمائزیشن میں سب سے اہم چیز کیٹلسٹ ہوتی ہے ۔کیٹلسٹ ڈیولپمنٹ، کیٹلسٹ کی ایویولیشن ،پھر پولیمائزیشن کے بعد میٹریل کی کیٹرائزیشن ہمارے ذمہ ہے۔

*اردونیوز:آپ کے پاس جو عملہ ہے وہ کیمیکل یا میکینکل کس شعبے سے تعلق رکھتا ہے؟

*انجینیئر نیازاحمد:میرے پاس زیادہ تر کیمیکل انجینئرز ہیں جن میں اکثریت سعودی کیمیکل انجینئر ز کی ہے جنہیں میں تربیت دے رہا ہوں ۔سعود ی کیمیکل انجینیئرزمیں قابلیت بھی ہے۔2 کیمیکل انجینیئرز کو پلاسٹک کی ایپلیکشن سمجھنے اور ریسرچ اینڈڈیولپمنٹ کی تربیت دے رہا ہوں۔

*اردونیوز:نئے مکینیکل انجینیئرز کیلئے مشرق وسطیٰ اور خصوصا ً سعودی عرب میں کتنے مواقع ہیں؟

*انجینیئر نیازاحمد:پاک وہند یابنگلہ دیش کے انجینئرز کیلئے اپنے ممالک میں ایپلیکیشنز بہت زیادہ ہے تاہم اگر وہ اسپلائزیشن کے شعبے میں آتے ہیں تو ان کیلئے مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب میں کافی مواقع ہیں کیونکہ پولیمر پیٹرولیم آئل سے ہی لیاجاتا ہے اور چونکہ تیل کے حوالے سے مشرق وسطیٰ بہت وسیع ہے اس لئے ان طلباء کیلئے یہاں کافی مواقع ہیں۔

*اردونیوز:ہمارے ممالک کے طلباء اگر مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب میں اس شعبے میں ملازمت تلاش کرنا چاہیں تووہ کیسے آسکتے ہیں؟

*انجینیئرنیاز احمد:یہاں پر بڑے بڑے کیمیکل کمپلیس ،جیسے صدارا،پیٹرو رابغ ،سابق وغیرہ کی اپنی ویب سائٹس ہیں ۔ان پر باقاعدہ ملازمت آتی رہتی ہیں ۔یہ لوگ ایسے طلباء کو فوقیت دیتے ہیں اور اچھی تنخواہوں پر ملازمت دیتے ہیں۔

*اردونیوز:آپ کی تحقیق صرف سعودی عرب تک محدود ہے یا باہر بھی برآمد کرتے ہیں؟

*انجینیئرنیازاحمد:بہت اہم سوال ہے ۔پولیمر بین الاقوامی پراجیکٹ ہے ۔میں خود باہر ممالک جاکر لیکچر زدے چکا ہوں۔پولیمر مستقبل میں بہت اہم ہے ۔بہت جلد ہی آپ دیکھیں گے کہ گاڑیوں کی پوری باڈی پلاسٹک یعنی پولیمر کی ہوگی ،جبکہ عمارتوں ،ہوائی جہاز ،راکٹس اور انجن میں بھی پولیمر نظر آئے گا۔*اردونیوز:اچھا ایک طرف تو کہاجاتا ہے کہ پلاسٹک بہت نقصان دہ ہے دوسری جانب اس کے اتنے وسیع استعمال کی توقع؟ یہ کیاماجرا ہے؟

*انجینیئرز نیازاحمد:پلاسٹک کے استعمال کیلئے 3Rکا تصوردیاگیا ہے جس کا مطلب ہے کہ ’’ویسٹیج کم کریں،ریسائیکل کریں اور پھر استعمال کریں‘‘ اگر اس پر عمل کیاجائے تو ماحول کامسئلہ نہیں ہوگا۔پلاسٹک ماحول کو برباد نہیں کررہا۔یہ ماحولیات کے ماہرین کا پروپیگنڈا ہے ۔

اس میں شہریوں کو تربیت دینے کی ضرورت ہے کہ پلاسٹک استعمال کرکے کچرا دان میں ڈالیں۔جہاں سے وہ ریسائیکل میں جائے اور پھر استعمال میں آئے تاہم ریسائیکل کے بعد اس کااستعمال تبدیل ہوجاتا ہے۔لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔میری کمپنی ’’نیٹ پیٹ‘‘ سمیت دیگر کمپنیوںنے باقاعدہ آگاہی پروگرام شروع کئے ہیں تاکہ پلاسٹک کا صحیح استعمال کیا جائے۔ہم نے کچھ عرصے پہلے ہی ’’ویسٹ فری انوائرمنٹ‘‘ کے نام سے مہم شروع کی جس میں عوام کو یہ سکھایا گیا کہ راستے میں اگر آپ کو پولی تھن تھیلیاں ،پلاسٹک کی بوتل ملیں توانہیں اٹھاکر کچرے کے ڈبے میں ڈالیں۔

*اردونیوز:آپ مغربی ممالک جاتے رہتے ہیں وہاں صفائی کا معیار اچھا ہوتا ہے ہمار ے ہاں ایسا نہیں ہوتا ایسا کیوں ہے؟

انجینیئرنیازاحمد:اس کی بنیادی وجہ’’ سوک سینس‘‘ ہے ۔ہمارے ہاں اس پر کم کام ہوا ہے،لوگوں کو یہ بتانا کہ سڑک پر کیسے چلنا ہے ،گاڑی کیسے چلانی ہے۔گاڑی سے کچرا نہ پھینکیں ضروری ہوتا ہے ۔مغربی ممالک میں یہ کلچر بن چکا ہے ۔ہمارے ہاں حکومت بلدیاتی اداروں کے ذریعے عوام میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کرے۔

*اردونیوز:اچھا نیاز صاحب بہت ہوگئی ٹیکنیکل گفتگو ،کچھ جذبات کے تار چھیڑ تے ہیں ۔پردیس میں رہنے والا جب اپنے ملک سے دور ہوتا ہے اس کے کیا احساسات ہوتے ہیں کیا وہ صرف فائدہ ہی حاصل کرتا ہے یا کچھ ضائع بھی کرتا ہے؟

*انجینیئر نیا زاحمد:یہ بہت اہم سوال ہے۔اس میں 2باتیں ہیں۔جو لوگ اپنا ملک چھوڑ کر باہر آتے ہیں ان کیلئے بہت مشہور جملہ کہاجاتا ہے ’’غریب الدیار،غریب الوطنی‘‘ یہ لفظ خود اس بے بسی کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ بندہ قابل رحم ہے۔آپ نے اپنا ملک چھوڑا تو پھر کوئی زمین ایسی نہیں جہاں آپ کو وہ سکون مل سکے جو اپنے وطن میں مل سکتا ہے۔بہرحال ہمار ی حکومتوں کی وجہ سے لوگ بحالت مجبوری ذریعہ معاش کی تلاش میں باہر نکلتے ہیں۔ہمارے لوگ محنتی ہیں اس لئے وہ باہر نکل کر کماتو لیتے ہیں مگر محرومی کا شکار ہوجاتے ہیں۔خصوصاً وہ لوگ جو تنہا ہوتے ہیں وہ تو ایک قسم کی اذیت میں ہیں ۔وہ خود کو تسلی ضرور دے رہے ہیں مگر اندر سے وہ تنہا ہیں۔یہ حوصلہ افزا چیز نہیں کہ کوئی آدمی پوری زندگی باہر ایک مشین کے حصے کی طرح گزاردے۔دیکھیں باہر رہنا کم وقتی فیصلہ ہوسکتا ہے ۔ہوتا یہ ہے کہ باہر آکر انسان بڑی محنت سے پیسے کماکر وہاں بھیجتا ہے اور عموماً وہاں لوگ اڑاتے ہیں ۔کئی واقعات میں لوگ واپس جاتے ہیں تو خالی ہاتھ ہوتے ہیں۔میری گزارش ہے جو لوگ اپنے ملکوں میں ہیں اور ان کے عزیز باہر ممالک میں کمارہا ہے تو یاد رکھیں کہ وہ بہت اذیت میں ہوتا ہے ۔اس لئے اس کی محنت سے کمائے گئے پیسے کو بچائیں۔ایسے لوگوں کی قدر کریں ۔ہم ان کو پیسہ کمانے کی مشین نہ سمجھیں بلکہ ایک مجبور انسان سمجھیں اور جب وہ واپس اپنے ملک آئیں تو ا س کو اپنا محسن سمجھیں۔دوسری بات اور بتانا چاہوںگا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب میں بہت پیسہ ہے ،لوگ اپنی زمینیں فروخت کرکے یہاں آجاتے ہیں مگر پھر نوکری کیلئے بہت مسائل ہوتے ہیں۔اس لئے میں اردونیوز کے توسط سے مشورہ دینا چاہتا ہوںکہ دوست خیالی دنیا میں رہنے کے بجائے لوگوں سے صحیح معلومات لیں پھر یہاں آئیں۔اگر آپ یہاں آرہے ہیں اور آپ کی تنخواہ 3ہزار ریال سے کم ہیں تو آپ یہاں کے اخراجات کبھی پورے نہیں کرسکتے جبکہ تعلیم یافتہ افراد ہی یہاں کا رخ کریں غیرتعلیم یافتہ افراد کیلئے یہاں کچھ بھی نہیں۔

آخرمیں ہم سے نیاز احمد کی بیٹی زینب نے بھی بات کی ،زینب کا کہنا تھا کہ مجھے پاکستان بہت اچھا لگتا ہے ،میں پاکستان میں اپنے کزنز کے ساتھ بہت انجوائے کرتی ہوں۔

***محترم قارئین !***

اردونیوز ویب سائٹ پر بیرون ملک مقیم پاکستانی،ہندوستانی اور بنگلہ دیشیوں کے انٹرویوز اور کہانیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔اس کا مقصد بیرون ملک جاکر بسنے والے ہم وطنوں کے مسائل کے ساتھ ان کی اپنے ملک اور خاندان کیلئے قربانیوں کو اجاگر کرنا ہے۔

آپ اپنے تجربات ،حقائق،واقعات اور احساسات ہمیں بتائیں ۔آئیے اپنی ویب سائٹ www.urdunews.com سے منسلک ہوجائیں۔۔ہمیں اپنے پیغامات کمپوز کرکے بھیجیں ،یا پھر ہاتھ سے لکھے کاغذ کو اسکین کرکے ہمیں اس دیئے گئے ای میل پر بھیج دیں جبکہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ سے بذریعہ اسکائپ ،فیس بک (ویڈیو)،ایمو یا لائن پر بھی انٹرویو کرسکتے ہیں۔

- -ہم سے فون نمبر 0966122836200 ext: 3428۔آپ سے گفتگواردو نیوز کیلئے باعث افتخار ہوگی۔۔

ای میل:[email protected]

شیئر: