Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گیم اوور یا اب بھی وزیراعظم عمران خان کی حکومت بچ سکتی ہے؟

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ ہونے کی ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان خود ہی مستعفی ہوجائیں (فائل فوٹو: پی ایم آفس)
ایم کیو ایم کی طرف سے اپوزیشن کے ساتھ معاہدے کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو بظاہر اکثریت حاصل ہوگئی ہے اور حکومت کے لیے پارلیمنٹ میں عددی اکثریت کی بنیاد پر برقرار رہنا مشکل ہوگیا ہے۔
ایم کیو ایم کی شمولیت سے قبل بھی اپوزیشن کو پارلیمنٹ میں 170 ارکان کی حمایت حاصل تھی مگر سات رکنی اتحادی جماعت کی شمولیت کے بعد اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 177 ووٹوں کی فیصلہ کن اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔  
یاد رہے کہ 342 رکنی ایوان میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کو 172 ووٹ درکار ہیں۔
متحدہ اپوزیشن اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے درمیان معاہدہ منگل کو رات گئے طے پایا اور اس کی تفصیلات آج بدھ کی شام اسلام آباد میں باضابطہ طور پر میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔
معاہدے کی تصدیق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے علیحدہ علیحدہ ٹویٹس میں بھی کردیں۔
وفاقی کابینہ میں شامل ایم کیو ایم کے دو وزرا فروغ نسیم اور امین الحق کے استعفے کی اطلاعات نے بھی اس معاہدے پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یقینی؟
ایم کیو ایم کی حمایت ملنے کے بعد اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کے لیے درکار 172 ووٹوں سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہو جائے گی جبکہ حکومت کے نمبر 165 رہ جائیں گے۔ یوں اپوزیشن اتحاد کو پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کے ووٹوں کی ضرورت بھی نہیں رہے گی اور ایوان میں وزیراعظم اپنی اکثریت کھو دیں گے۔  
تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اپوزیشن اور اس کے نئے اتحادیوں کے تمام ارکان تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دن پارلیمنٹ ہاؤس پہنچیں اور ووٹنگ کے عمل میں شریک ہوں۔

ایم کیو ایم کی شمولیت کے بعد اپوزیشن کو تحریک کی کامیابی کے لیے 177 ووٹوں کی فیصلہ کن اکثریت حاصل ہوگئی ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

وزیراعظم صرف اس صورت میں اپنی حکومت بچا سکتے ہیں کہ وہ ایم کیو ایم یا باپ کو حکومت میں واپسی پر قائل کر لیں یا اپوزیشن اور اس کے اتحادی ارکان کو قائل کر لیں کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں ان کے خلاف ووٹ نہ دیں تاہم اس صورت میں ان ارکان پر بھی آرٹیکل 63 اے کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے اور انہیں اپنی نشستوں سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔
حکومت کب تک تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ روک سکتی ہے؟
آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد کی سپیکر کی جانب سے اجازت کے بعد زیادہ سے زیادہ سات دن میں اس پر ووٹنگ ضروری ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی نے 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت دی تھی۔ گویا حکومت کو آئینی ضرورت پوری کرنے کےلیے ہر صورت میں چار اپریل یا اس سے قبل ووٹنگ کرانا ہو گی۔عام تاثر یہی ہے کہ حکومت اس مدت کے اندر اندر ووٹنگ کروائے گی کیونکہ ماہرین کے مطابق ایسا نہ کرنے کی صورت میں سپیکر قومی اسمبلی آئینی خلاف ورزی کے مرتکب ٹھہریں گے اور ان کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی کی جاسکتی ہے۔

 342 رکنی ایوان میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کو 172 ووٹ درکار ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

پیر کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے بھی بتایا تھا کہ ووٹنگ مطلوبہ مدت میں کروا دی جائے گی۔اگر ایسا ہوجاتا ہے تو حکومت کے لیے بظاہر برقرار رہنا مشکل ہوجائے گا۔
کس صورت میں تحریک عدم اعتماد پر کارروائی رُک سکتی ہے؟
تحریک عدم اعتماد پر کارروائی آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت کی جاتی ہے۔ اس پر کارروائی کو روکنے کا اختیار کسی عدالت کو بھی نہیں ہے اور سپریم کورٹ چند دن قبل پہلے ہی یہ وضاحت کر چکی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔
گویا صرف دو صورتوں میں تحریک عدم اعتماد پر کاروائی رک سکتی ہے۔ ایک یہ کہ کسی سیاسی مفاہمت کے بعد اپوزیشن تحریک عدم اعتماد واپس لے لے تو اس پر کاروائی رک جائے گی۔ تاہم موجودہ تناو کے ماحول میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اتنی دوریاں پیدا ہو چکی ہیں کہ دونوں فریقوں کے درمیان مفاہمت انتہائی مشکل نظر آتی ہے۔

سپریم کورٹ چند دن قبل پہلے ہی یہ وضاحت کرچکی ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ ہونے کی دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اپنی اکثریت کھو دینے کے بعد خود ہی مستعفی ہو جائیں۔ سیاسی ماہرین کے مطابق اس بات کا بھی امکان کم نظر آ رہا ہے کیونکہ میڈیا کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں میں وہ اپنے استعفی کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں کسی بھی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوئی۔ ماضی میں وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور شوکت عزیز کے خلاف تحاریک ناکام ہو چکی ہیں۔
کیا اس بار بھی تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی یا تاریخ بدلے گی اس بات کا فیصلہ اب صرف چند دن دور ہے۔

شیئر: