Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی خاتون رشیدہ الرشیدی کا سفر: سوئی دھاگے سے عالمی شناخت تک

سعودی خاتون کی کہانی کشیدہ کاری سے دلچسپی کے نتیجے میں شروع ہوئی (فوٹو: عرب نیوز)
 سعودی خاتون ڈیزائنر رشیدہ راشد علی الرشیدی نے سوئی دھاگے سے کام کرنے کے اپنے جذبے کو ایک بے مثال اور مستند شناخت میں بدل دیا ہے جس سے انھیں دنیا بھر میں پہچان مل چکی ہے۔
الرشیدی یا امِ نصر نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ’میری کہانی کشیدہ کاری سے دلچسپی کے نتیجے میں شروع ہوئی۔ میرے لیے یہ کام شوق کی حیثیت رکھتا تھا جس کی وجہ سے میں مصروف رہتی تھی اور مجھے اطمینان بھی ملتا تھا۔
جوں جو وقت گزرتا گیا میں نے محسوس کیا کہ اس مشغلے کی قدر زیادہ ہے۔ یہ سوئی اور دھاگے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ یہ ایک شناخت ہے اور تخلیق کی ایک صورت ہے جو لوگوں کی زندگیوں میں فرق ڈال سکتی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ اس خیال کے بعد انہوں نے اپنی مہارت اور ہنر کو مزید نکھارنے کے طریقے تلاش کرنے شروع کیے۔
میں نے پروفیشنل کی حیثیت میں یہ کام کرنے کا لائسنس حاصل کیا، ’ٹرین دا ٹرینر‘ سرٹیفکیٹ لیا اور ایک فری لانس پرمٹ حاصل کیا۔ یہ اقدام میرے لیے بہت اہم تھے کیونکہ انھوں نے میری ذاتی عزت و تکریم بڑھائی اور مجھ میں احساس پیدا ہوا کہ میرے قدموں کے نیچے سرکنے والی زمین نھیں بلکہ مضبوط بنیاد ہے۔

 ان کا کہنا ہے ایڈیڈاس کے ساتھ شراکت زندگی کا سب سے یادگار سنگِ میل ہے ( فوٹو :عرب نیوز)

انہوں نے بہت سے ایونٹس میں شرکت کی ہے اور کئی اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے جن میں ’بحالی کا جامع مرکز‘، ’سعودی الیکٹرک ریگیولیٹری اتھارٹی‘ اور ’حاریکا ایسوسی ایشن وِد فیزیکل ڈس ایبیلیٹی‘ شامل ہیں۔
 کھجور فیسٹیول، وزارتِ ماحولیات، آب اور زراعت اور ملکی سطح پر ہونے والی کئی دیگر تقریبات میں بھی شرکت کی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی سے گریجوایشن کا پروجیکٹ بھی کیا ہے۔
انہوں نے بتایا ’حال ہی میں انہیں اپنے کام کی وجہ سے عالمی سطح پر پہچان ملی۔ ایڈیڈاس کے ساتھ شراکت میری زندگی کا سب سے یادگار سنگِ میل ہے جہاں تسمہ ڈیزائن کیا جس میں میرے فن کا وہ اسلوب ہے جو کہیں اور نہیں ملتا۔ یہ میرے لیے اہم موڑ ثابت ہوا ہے اور مجھے محسوس ہوا کہ وہ دھاگہ جو ایک چھوٹے سے گھر سے نمودار ہوا تھا، اب سرحدوں کو بھی پار کر کے بین الاقوامی پلیٹ فارمز تک پہنچ چکا ہے۔


 الرشیدی نے اپنے کام کو ’الذوق الرفیہ‘ کے نام سے شروع کیا ہے (فوٹو: ایس پی اے)

رشیدہ راشد علی الرشیدی نے اپنے کام کو ’الذوق الرفیہ‘ کے نام سے شروع کیا ہے جو ایسا برانڈ ہے جہاں سے سعودی کشیدہ کاری سے متاثر ہو کر بنائے جانے والی پروڈکٹس پیش کی جاتی ہیں۔
میں جدیدت کی روح کے ساتھ مملکت کے ورثے کے اِستناد کا امتزاج کرنا چاہتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے السُدو سے کام لے کر عبایا ڈیزائن کیے تاکہ یہ آرٹ لوگوں کی روز مرہ کی زندگی میں نظر آتا رہے مگر ایک جدید تبدیلی کے ساتھ جو ہر ذوق کی تسکین کا باعث بھی ہو۔


 بہت سے ایونٹس میں شرکت کی اور کئی اداروں کے ساتھ مل کر کام کیا ہے (فوٹو: ایکس اکاونٹ)

وہ کہتی ہیں: ’اگر آپ نے کوئی خواب دیکھا ہے تو اس چھوڑیے مت، بس اس کے ساتھ لگے رہیے۔ جب خوابوں کو صبر و استقامت کا سہارا مل جاتا ہے تو یہ کامیابی کی داستان بن جاتے ہیں۔ پھر وہ وقت آتا کہ آپ کو پتہ بھی نہیں ہوتا لیکن ایسے ہی خواب کسی اور کو متاثر کر کے اس کے لیے جذبۂ محرکہ کا روپ دھار لیتے ہیں۔
الرشیدی اپنی کمیونٹی اور اپنے اہلِ خانہ کو اعزاز بخشنا چاہتی ہیں کیونکہ ان کی کامیاب، انہی افراد کے تعاون کا نتیجہ ہے۔
ہر وہ دھاگہ جسے میں نے کسی چیز کو بنانے میں لگایا، اصل میں میرا ایک خواب تھا اور میری ہر کشیدہ کاری میں ایک پیغام تھا۔ آج مجھے یوں محسوس ہوتا کہ ابھی تو اس سفر کا آغاز ہوا ہے اور میرے پاس لوگوں کو دینے کے لیے بہت کچھ اور بھی ہے۔‘

 

شیئر: