Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چوہدری پرویز الٰہی کے وزیراعلٰی پنجاب بننے میں ممکنہ رکاوٹیں کیا ہیں؟

چوہدری پرویز الٰہی کو جہاں مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے وہیں کچھ معاملات ان کے حق میں بھی دکھائی دیتے ہیں (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
حکمراں جماعت تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلٰی نامزد کرنے کے اعلان نے سیاسی ہلچل کو سیاسی طوفان میں بدل دیا ہے۔
ایک طرف تو تحریک انصاف کے اپنے کارکنان اس اچانک تبدیلی پر حیران ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن بھی مخمصے کا شکار ہے۔ 
سردار عثمان بزدار نے وزارت اعلٰی کے منصب سے مستعفی ہونے کا اعلان ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’وہ خوشی سے اس عہدے سے علیحدہ ہو رہے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کی قیادت پر ان کا مکمل اعتماد ہے۔‘
اس ساری صورت حال میں اس وقت سب سے اہم سوال یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلٰی پنجاب نامزد کرنے کے بعد حکومت کے لیے انہیں وزیراعلٰی بنانا کتنا مشکل ہے؟
اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ پنجاب اسمبلی میں اس وقت پارٹی پوزیشن کیا ہے۔
پنجاب اسمبلی کا ایوان 371 اراکین پر مشتمل ہے جبکہ حکومت بنانے کے لیے کسی بھی پارٹی کو 186 اراکین کی حمایت حاصل ہونا ضروری ہے۔ 
سنہ 2018 میں سردار عثمان بزدار 194 ووٹوں سے وزیراعلٰی پنجاب منتخب ہوئے تھے۔ ق لیگ نے اپنے 10 ووٹوں سے ان کو سپورٹ کیا تھا جس کے بدلے میں پارٹی  کے صدر پرویز الٰہی کو پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنایا گیا تھا۔
پنجاب اسمبلی میں پارٹی پوزیشن یہ ہے کہ حکومتی اتحاد میں تحریک انصاف کے پاس 183 اراکین ہیں، ق لیگ کے پاس 10 اور ’راہ حق پارٹی‘ کے پاس ایک رکن ہے۔ 
اپوزیشن اتحاد میں مسلم لیگ ن کے پاس 165 اراکین، پیپلز پارٹی کے پاس سات کا ہندسہ ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو پرویزالٰہی کا وزیراعلٰی پنجاب بننا بالکل بھی مشکل نہیں لیکن اب حالات 2018 سے مختلف ہیں۔ 
چوہدری پرویز الٰہی کو درپیش چیلنجز
وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب پر فائز ہونے کے لیے چوہدری پرویز الٰہی کو جس بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے وہ حکمراں جماعت تحریک انصاف کے اندر بننے والے سیاسی دھڑے ہیں۔
ان میں سب سے بڑا دھڑا جہانگیر خان ترین کا ہے جو گذشتہ سال اپریل میں بظاہر حکومت سے اپنی راہیں جدا کرچکا ہے۔ جب جہانگیر ترین کے خلاف ایف آئی اے نے مقدمہ چلایا تھا تو انہوں نے 20 سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی کے ساتھ عدالت میں پیش ہو کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔
 جہانگیر ترین کا ساتھ دینے والے 20 سے زائد صوبائی اسمبلی کے ممبران نے ابھی تک اپنے فیصلے پر نظر ثانی نہیں کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ پرویز الٰہی کو اپنی راہ میں حائل رکاوٹ دور کرنے کے لیے تحریک انصاف کے سب سے بڑے دھڑے کو رام کرنا پڑے گا۔

ق لیگ کی جانب سے علیم خان کو ’کسی بھی صورت وزیراعلٰی پنجاب تسلیم نہ کرنے‘ کا اعلان کیا گیا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح علیم خان بھی پرویز الٰہی کے لیے چیلنج بن سکتے ہیں کیونکہ جب علیم خان نے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا تو ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ شاید وہ خود وزیراعلٰی پنجاب کے امیدوار کے طور پر سامنے آئیں گے۔
ق لیگ کی جانب سے ایسے بیانات جاری ہوئے جن میں علیم خان کو ’کسی بھی صورت وزیراعلٰی پنجاب تسلیم نہ کرنے‘ کا اعلان کیا گیا تھا۔
گروپ کے ایک اہم رکن نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’علیم خان اور چودھریوں کے درمیان خاصی بڑی خلیج حائل ہے۔ علیم خان سمجھتے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی نے انہیں غیر ضروری طور پر کئی مرتبہ تنقید کا نشانہ بنایا۔‘
علیم خان اگرچہ یہ دعویٰ تو کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنا گروپ بنانے کے بعد 40 سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی سے ملاقات کی ہے لیکن ابھی اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ اصل میں کتنے اراکین اسمبلی ان کے ساتھ ہیں۔
اپوزیشن نے عثمان بزدار کے خلاف دائر کی گئی عدم اعتماد کی تحریک میں کہا تھا کہ انہیں 200 سے زائد اراکین صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل ہے اور ان اراکین میں جہانگیر ترین یا علیم خان کا گروپ شامل نہیں تھا۔ اپوزیشن کا یہ دعویٰ بھی ق لیگ کے رہنما کے لیے ایک رکاوٹ بن سکتا ہے۔ 
دوسرے لفظوں میں تحریک انصاف کو وفاق میں جس طرح کی اندرونی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا ہے اپوزیشن کا ماننا ہے کہ صوبے میں بھی حکمراں جماعت کو ویسی ہی صورت حال درپیش ہوگی۔
تاہم ابھی تک اپوزیشن ایسے اراکین کو سامنے نہیں لاسکی جنہوں نے اپنی ہی حکومت کے خلاف بغاوت کا عَلم بلند کیا ہو۔

پرویز الٰہی کو جس بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے وہ تحریک انصاف کے اندر بننے والے سیاسی دھڑے ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)

مسلم لیگ ق کے رہنما چوہدری پرویز الٰہی کو جہاں مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے وہیں کچھ معاملات ان کے حق میں بھی دکھائی دیتے ہیں جیسے کہ مسلم لیگ ن کے وہ پانچ اراکین صوبائی اسمبلی جو 2020 میں ہی اپنی پارٹی سے انحراف کرچکے تھے۔
ان اراکین کو کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیے گئے تھے تاہم وہ پارٹی میں واپس نہیں آئے جبکہ پیپلز پارٹی کے ایک رکن اسمبلی بھی ہیں جو اپنی پارٹی سے بغاوت کا اعلان بہت عرصہ پہلے کرچکے ہیں۔
اسی طرح تحریک انصاف یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ انہوں نے مسلم لیگ ن کے کئی اراکین کو ’خفیہ طور پر ساتھ ملا لیا ہے‘۔ اگر وہ آخری وقت میں سامنے آتے ہیں تو پرویز الٰہی کی مشکلات میں کچھ کمی ممکن ہے البتہ ان اراکین پر نااہلی کی تلوار بھی لٹک رہی ہوگی۔ 

شیئر: