Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا: سکالرز اور سماجی کارکنان کی حجاب پر پابندی پر تنقید

پہلی مرتبہ جنوری 2021 میں کرناٹک کے ایک سکول نے حجاب پر پابندی عائد کی۔ فوٹو: اے پی
انڈین ریاست کرناٹک میں ہائی کورٹ کی جانب سے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر پابندی  برقرار رکھنے کے فیصلے پر سماجی کارکنوں اور آئینی امور کے ماہرین نے تنقید کی ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اگرچہ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ صرف جنوبی ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں پر ہی لاگو ہوتا ہے، لیکن ناقدین کو خدشہ ہے کہ اس فیصلے کو بنیاد بنا کر مذہبی خیالات کے اظہار پر قدغن لگائی جا سکتی ہے۔
حیدرآباد میں نلسل یونیورسٹی آف لا کے وائس چانسلر فیضان مصطفیٰ نے کہا کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے مذہبی آزادی محدود ہو سکتی ہے، عدالتوں کو اس نوعیت کے فیصلے نہیں کرنے چاہییں کے مذہب میں کیا ضروری ہے۔
حجاب سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران ریاست کی طرف سے عدالت میں پیش ہونے والے کرناٹک ایڈوکیٹ جنرل پرابھولنگ نوادگی نے کہا کہ اداروں کے نظم و ضبط کو انفرادی پسند یا ناپسند پر برتری حاصل ہونی چاہیے ورنہ افراتفرہ برپا ہوگی۔
عدالت کے فیصلے سے قبل 700 سینیئر وکلا اور سماجی کارکنوں نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے ایک کھلے خط میں حجاب کے خلاف پابندی کی مخالفت کی تھی۔
خیال رہے کہ حجاب پر تنازع گزشتہ سال جنوری میں شروع ہوا تھا جب ریاست کرناٹک کے شہر اڈوپی کے ایک سرکاری سکول میں ان طلبہ کو کلاس رومز میں داخل ہونے سے روک دیا تھا جنہوں نے حجاب پہنا ہوا تھا۔ سکول کے عملے کا کہنا تھا کہ حجاب پہننا سکول کے ضابطہ لباس کی خلاف ورزی ہے۔
سکول کے ان احکامات کے بعد مسلمانوں کی جانب سے مختلف ریاستوں میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود کرناٹک کی حکومت نے ریاست بھر کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کرنے کے احکامات جاری کر دیے تھے۔

کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب پابندی کی حمایت میں فیصلہ سنایا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

ممبئی ہائی کورٹ کے ایک وکیل ستیا مولی کا کہنا ہے کہ عدالت کا مذہبی آزادی پر کسی قسم کی حد لگانا بالکل مناسب اقدام ہے اگر وہ ضابطہ لباس کے ساتھ متصادم ہو اور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ تعلیمی اداروں میں نظم و ضبط اور یکسانیت برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ’کیا مذہب کو آئین پر ترجیح حاصل ہے؟ ریاست کے احکامات کو برقرار رکھتے ہوئےعدالت نے اپنے فیصلے میں اسی سوال کا جواب دیا ہے۔‘
دوسری جانب دہلی کی نیشنل لا یونیورسٹی کی قانونی امور پر پروفیسر انوپ سرندراناتھ نےعدالتی فیصلے کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاست صرف تین وجوہات کی بنا پر مذہبی آزادی میں مداخلت کر سکتی ہے جن میں امن و عامہ، اخلاقیات یا صحت شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے اپنے حکم میں ان میں سے کسی ایک وجہ کا بھی حوالہ نہیں دیا بلکہ سکولوں میں یکسانیت پر زور دیا ہے جو دراصل تنوع اور کثیر الثقافتی اقدار کے بالکل الٹ ہے جنہیں انڈیا کا آئین بھی اہمیت دیتا ہے۔

شیئر: