Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشنز ہیں؟

سیاسی ماہرین کے مطابق عمران خان اور ان کی جماعت کے پاس اس وقت تین آپشنز ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو خلاف آئین قرار دینے اور اسمبلی اور حکومت کی بحالی کے بعد وزیراعظم عمران خان ایک بار پھر ہفتے کو تحریک عدم اعتماد کا سامنا کریں گے۔
اس صورتحال میں حکمراں جماعت پی ٹی آئی بظاہر مشکل کا شکار ہو گئی ہے اور وزیراعظم اور ان کے رفقا اگلے لائحہ عمل پر مشاورت کر رہے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق کپتان نے بھی اگلے اقدام کی تیاری کر رکھی ہے تاہم ابھی تک اسے بھی ایک سرپرائز کی شکل میں مخفی رکھا ہوا ہے۔
سیاسی ماہرین کے مطابق عمران خان اور ان کی جماعت کے پاس اس وقت تین آپشنز ہیں، جن کو استعمال کر سکتے ہیں۔

سیاسی قسمت قبول کرنا

حکمراں جماعت کے پاس ایک آپشن تو یہ ہے کہ ہفتے کو ہونے والی ووٹنگ میں حصہ لے اور شکست کی صورت میں باعزت طور پر اسے تسلیم کر کے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جائے، یا پھر ووٹنگ سے قبل ہی وزیراعظم عمران خان مستعفی ہو جائیں اور ایوان نئے قائد کا انتخاب کر لے۔
اس صورت میں حکومت کو یہ خدشہ تو ہوگا کہ حکومت اس کے خلاف کیسز کھول سکتی ہے۔ اس خدشے کا اظہار وزیراعظم ایک حالیہ انٹرویو میں بھی کر چکے ہیں کہ آئندہ آنے والی حکومت ان کی اہلیہ اور ان کی دوست فرخ خان کے خلاف کردار کشی کی مہم شروع کر سکتی ہے۔
تاہم دوسری طرف پی ٹی آئی کو فائدہ یہ ہو سکتا ہے کہ آنے والی ممکنہ حکومت موجودہ معاشی صورتحال کی وجہ سے مہنگائی کرنے پر مجبور ہوگی اور آئندہ انتخابات کی صورت میں عوام میں مقبولیت کھو سکتی ہے۔

وزیراعظم اور ان کے رفقا اگلے لائحہ عمل پر مشاورت کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اسمبلیوں سے مشترکہ استعفے

دوسری طرف وزیراعظم کے قریبی حلقے اس حوالے سے عندیہ دے چکے ہیں کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کی صورت میں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی گروپ کی شکل میں مستعفی ہو سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں نئی حکومت کو اتنی بڑی تعداد میں ارکان کے استعفوں کی وجہ سے مشکلات آ سکتی ہیں مگر آئینی ماہرین کے مطابق استعفوں کے باجود نئی حکومت کے قائم ہونے میں رکاوٹ نہیں ہوگی تاہم اسے اخلاقی اور قانونی جواز کے حوالے سے مشکلات ہوں گی۔

سپیکر کا کسی تکنیکی نکتے کا حوالہ

حکومت کے پاس ایک آپشن یہ بھی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی ووٹنگ کے عمل میں کوئی تکنیکی قانونی حوالے دے کر اپوزیشن کے لیے مسئلہ پیدا کر دیں۔ حالانکہ سپریم کورٹ کی جانب ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دینے کے بعد سپیکر پر دباو ہوگا کہ کوئی ایسا کام نہ کریں کہ دوبارہ سے معاملہ عدالت میں جائے تاہم کوئی قانونی نکتہ ڈھونڈنے کی کوشش پھر بھی کی جا سکتی ہے۔

عوامی تحریک چلانا 
 

وزیراعظم عمران خان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر وہ واقعی خطرناک ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کے ’خودداری‘ کے بیانیے کو تقویت ملی ہے اور انکی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اپوزیشن میں جانے کے بعد وہ عوامی حمایت کو متحرک کر سکتے ہیں اور جسطرح 2014 میں انہوں نے ڈی چوک پر کنٹینر لگا کر کاروبار حکومت معطل کر دیا تھا وہ اس طرح آنے والی حکومت کے لیے بھی عوامی تحریک سے بہت زیادہ مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔

شیئر: