Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعلٰی کا انتخاب، فریقین کو پیر تک جواب جمع کرانے کا حکم

عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ فوری انتخابات کا حکم دے تاکہ آئینی بحران ختم ہو سکے (فوٹو: اے پی پی)
لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز کی وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب کے لیے دائر درخواست پر 11 اپریل تک تمام فریقین کو جواب جمع کروانے کا حکم دے دیا ہے۔
جمعے کو کیس کی سماعت چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ محمد امیر بھٹی نے کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس کی سماعت پیر کو رکھ رہے ہیں۔
مسلم لیگ ن کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے جواب میں کہا کہ مائی لارڈ چیف جسٹس پاکستان نے اتوار کو کیس سنا۔ برائے مہربانی اس کیس کو ہفتے کو سن لیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں صورتحال مختلف تھی اور وہ ازخود نوٹس تھا۔
’سماعت قانون کے مطابق آگے بڑھے گی۔ کسی کے لیے الگ قانون نہیں ہے۔‘
عدالت نے 11 اپریل تک تمام فریقین کو جواب جمع کروانے کا حکم دے دیا جبکہ سیکریٹری پنجاب اسمبلی کو مکمل ریکارڈ سمیت پیر کو طلب کر لیا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کو اسمبلی میں داخلے کی اجازت دینے کی استدعا بھی مسترد کر دی۔
انہوں نے کہا کہ ’پہلے مکمل ریکارڈ آ جائے پھر دیکھتے ہیں۔‘
قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز کی وزیراعلٰی پنجاب کے انتخاب کے لیے دائر درخواست پر اعتراض مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیےمنظور کر لیا تھا۔
جمعے کو حمزہ شہباز نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی کہ عدالت صوبے میں وزیراعلیٰ کے چناؤ کے لیے پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلانے کا حکم جاری کرے۔
اس درخواست میں سپیکر، ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی، سیکرٹری اسمبلی، چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ اسمبلی کا اجلاس تاخیر سے بلانے کا نوٹیفیکیشن ختم کرتے ہوئے عدالت فوری انتخابات کا حکم دے تاکہ آئینی بحران ختم ہو سکے۔ عدالت عالیہ تمام متعلقہ حکام جن کو اس درخواست میں فریق بنایا گیا ہے، کو حکم دے کہ وہ وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حائل تمام رکاوٹیں دور کریں۔ 
لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی آئینی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’یکم اپریل سے وزیراعلیٰ پنجاب کا عہدہ خالی ہے جبکہ سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک ابھی تک زیرِالتوا ہے۔ تاہم وزیراعلیٰ کے استعفے کے بعد یہ تحریک غیرمؤثر ہوئی اور 2 اپریل کو نئے وزیراعلیٰ کا انتخابی عمل شروع ہوا۔‘
’پرویزالٰہی اور حمزہ شہباز امیدوار کے طور پر سامنے آئے، کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد تین اپریل صبح ساڑھے 11 بجے انتخاب کا وقت مقرر ہوا۔ ڈپٹی سپیکر نے بغیر کسی وجہ کے انتخاب کے لیے بلایا گیا اجلاس 6 اپریل تک ملتوی کر دیا۔‘ 

درخواست کے مطابق ’سپریم کورٹ نے کچھ ایسی آبزرویشنز دیں کہ یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ سن سکتی ہے‘ (فوٹو: اے ایف پی)

درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے وفاق میں پیدا ہونے والے آئینی بحران کے نتیجے میں ازخود نوٹس لیا تو پنجاب کی صورت حال پر بھی نوٹس جاری کیے تاہم بعد میں عدالت عظمیٰ نے کچھ ایسی آبزرویشنز دیں کہ یہ مقدمہ لاہور ہائی کورٹ سن سکتی ہے۔
’سپریم کورٹ کے روبرو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے 6 اپریل کو وزیراعلیٰ کا انتخاب کروانے کی یقین دہانی کروائی لیکن سماعت ختم ہوتے ہی الیکشن 16 اپریل کو کروانے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے جو کہ غیرآئینی قدم ہے۔‘
عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ اسمبلی کا اجلاس تاخیر سے بلانے کا نوٹیفیکیشن ختم کرتے ہوئے عدالت فوری انتخابات کا حکم دے تاکہ آئینی بحران ختم ہو سکے۔ عدالت عالیہ تمام متعلقہ حکام جن کو اس درخواست میں فریق بنایا گیا ہے کو حکم دے کہ وہ وزیراعلیٰ کے انتخاب میں حائل تمام رکاوٹیں دور کریں۔ 

درخواست پر اعتراض مسترد

ہائی کورٹ آفس نے مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض لگایا تھا۔ رجسٹرار آفس کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ’آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت اسمبلی کی کارروائی کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔‘
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے رجسٹرار آفس کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے درخواست قابل سماعت قرار دے دی ہے۔
خیال رہے کہ اس وقت سپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی اور ڈپٹی سپیکر دوست مزاری کے خلاف بھی تحریک عدم اعتماد پنجاب اسمبلی میں پیش ہوچکی ہیں۔

ہائی کورٹ آفس نے مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض لگایا تھا (فائل فوٹو)

مسلم لیگ نواز الزام لگا رہی ہے کہ پرویزالٰہی جان بوجھ کر وزارت اعلیٰ کے انتخاب میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ ق کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے 3 اپریل کو اسمبلی کے اندر احتجاج کے دوران عمارت کو نقصان پہنچایا، اس لیے 16 اپریل سے پہلے اس کی مرمت نہیں ہو سکتی۔  
پنجاب میں سیاسی صورت حال یہ ہے تحریک انصاف کے دو دھڑوں ترین گروپ اور علیم خان نے وزیراعلیٰ کے عہدے کے لیے حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے جبکہ پیپلزپارٹی بھی پہلے ہی اسمبلی میں ن لیگ کی حلیف جماعت ہے۔
حمزہ شہباز کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس 200 اراکین کی حمایت جبکہ جبکہ چوہدری پرویزالٰہی کہتے ہیں ہیں کہ ان کے پاس 186 اراکین پورے ہیں۔
خیال رہے کہ پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت کے لیے 186 اراکین کی ضرورت ہوتی ہے۔

شیئر: