Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینکڑوں پولیس اہلکاروں کے درمیان بے اختیار ’وزیراعلیٰ پنجاب‘

پنجاب اسمبلی کے دیوہیکل دروازے اراکین اسمبلی پر بند کر دیے گئے (فوٹو سکرین گریب)
اپوزیشن نے پنجاب میں وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے ڈپٹی سپیکر کے نوٹیفیکیشن کے مطابق اجلاس میں شرکت کی کوشش کی تو انہیں سسٹم کی طاقت کا سامنا کرنا پڑا۔  
پنجاب اسمبلی کے دیوہیکل دروازے اراکین اسمبلی پر بند کر دیے گئے اور صرف یہی نہیں ہوا، بلکہ طاقت کے ایوان کے اندر بیٹھے عملے نے سپیکر چوہدری پرویز الہی کے احکامات پر ڈپٹی سپیکر کو بے اختیار کر دیا۔  
اس بات کا ادراک اس وقت نوٹیفیکیشن سے ہوا جو واٹس ایپ پر اسمبلی کے ترجمان نے بھیجا تھا۔ ڈپٹی سپیکر دوست مزاری جنہوں نے روگردانی کرتے ہوئے اجلاس دوبارہ چھ اپریل کو بلا تو لیا تھا، لیکن خود ان پر اسمبلی کا دروازہ بند کر دیا گیا۔  
اپوزیشن نے پھر بھی اجلاس کی ٹھانی اور ایک نجی ہوٹل میں اجلاس کرنے کا اعلان کر دیا۔ البتہ یہ بھاری بھرکم فیصلہ بھی نوجوان ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نہ کر سکے کہ وہ اسمبلی کی عمارت کے باہر کسی اور جگہ ہونے والے اجلاس میں جائیں یا نہ جائیں۔  
اور بالاخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ نہیں آئیں گے۔ اسمبلی کے بند دروازوں کے آگے کھڑے ہو کر انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا اور چلے گئے۔ اس سے پہلے ان کا یہ بھی شکوہ تھا کہ ڈپٹی سپیکر ہوتے ہوئے عملہ ان کی حکم عدولی کر رہا ہے۔  
پنجاب اسمبلی کا عملہ سپیکر چوہدری پرویز الہی کے حکم کا پابند نظر آیا، بلکہ انتظامیہ بھی انہی کے ماتحت دکھائی دی۔
شام سات بجے اپوزیشن کے ایم پی ایز نے پنجاب اسمبلی کی عمارت کے ساتھ واقع ایک نجی ہوٹل میں پہنچنا شروع کیا تو مریم نواز بھی اظہار یکجہتی کے لیے ایک بڑی بس میں ارکان اسمبلی کے ہمراہ آئیں۔  
فلیٹیز ہوٹل کا یہ وہی ہال تھا جس میں کورونا کے دنوں میں پنجاب اسمبلی کے سیشن منعقد ہوتے رہے تھے۔ ن لیگ نے اس علامتی اجلاس میں بظاہر تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کی کوشش کی۔  
ہوٹل کا ہال پوری طرح اسمبلی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ایک طرف پریس گیلری تھی اور دوسری طرف مہمان گیلری جہاں مریم نواز، تحریک انصاف کے عون چوہدری اور گلوکار وارث بیگ جیسی شخصیات بیٹھی تھیں۔
اجلاس کی صدارت شازیہ عابد نامی ایم پی اے نے کی جو کہ پینل آف چئیر پرسن بھی تھیں۔

حمزہ شہباز نے نمبر تو پورے کر لیے ہیں، لیکن ان کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا (فوٹو سکرین گریب)

پینل آف چئیر پرسن بنیادی طور پر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی غیرموجودگی میں اسمبلی کی کارروائی چلا سکتا ہو۔ ہر اسمبلی سیشن میں حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے پانچ پینل آف چئیر پرسن دیے جاتے ہیں۔  
بظاہر اسمبلی اجلاس کے تمام تقاضے پورے کیے جا رہے تھے۔ اراکین اسمبلی کی ایک بڑی تعداد پہنچ چکی تھی۔ سب سے آگے والی نشستوں پر تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے چہرے نمایاں تھے۔
حمزہ شہباز اور مریم نواز کی ہال میں انٹری کے بعد علیم خان کو حمزہ شہباز کے برابر نشست دی گئی۔ اجلاس کی کارروائی چلانے کے لیے سابق ڈپٹی سپیکر رانا مشہود پینل آف چئیر پرسن کو گائیڈ کرتے رہے۔  
تلاوت کے بعد اجلاس چئیر پرسن نے گنتی کے احکامات دیے تو ان کو بتایا گیا کہ حمزہ شہباز کی حمایت میں 199 اراکین موجود ہیں۔ جب کہ ان کے مدمقابل امیدوار پرویز الہی کا ایک بھی امیدوار نہیں تھا۔  
ہال میں تالیاں گونج اٹھیں اور علامتی طور پر حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ بن گئے۔ باہر سینکڑوں پولیس اہلکار ہوٹل کے چاروں اطراف مسلح کھڑے تھے، لیکن علامتی وزیر اعلیٰ بغیر اختیار اور بغیر سرکاری پروٹوکول وہاں سے روانہ ہو گئے۔  
اپوزیشن کے اس عمل کے بعد پنجاب میں آئینی اور سیاسی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس بحران کی نوعیت کچھ اس طرح کی ہے کہ ایک وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہیں جن کے پاس استعفیٰ دینے کے بعد نئے وزیر اعلیٰ کا چارج تو ہے، لیکن وہ کوئی ایگزیکٹو آرڈر جاری نہیں کر سکتے۔
دوسرے حمزہ شہباز ہیں جنہوں نے صوبائی اسمبلی میں وزیر اعلیٰ بننے کے لیے نمبر تو پورے کر لیے ہیں، لیکن ان کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا۔

پنجاب اسمبلی کے گرد پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی (فوٹو سکرین گریب)

ایک طرف سپیکر صوبائی اسمبلی اجلاس کی صدارت نہیں کر سکتے، کیونکہ وہ خود وزیر اعلیٰ کے امیدوار ہیں۔
دوسری طرف دوست مزاری ہیں جن کے خلاف نہ صرف عدم اعتماد کی تحریک داخل کی جا چکی ہے، بلکہ سپیکر نے ان کے اختیارات بھی ختم کر دیے ہیں۔ اب وہ خود بھی اسمبلی کی عمارت میں داخل نہیں ہو سکتے۔  

شیئر: