Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا عمران خان سڑکوں پر خطرناک ثابت ہو رہے ہیں؟

اپنے اقتدار کے آخری ایام میں عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے بارے نیوٹرل ہونے کا تاثر دیے جانے پر بھی ردعمل دیا۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
اگر میں حکومت سے باہر نکل گیا تو آپ کے لیے میں زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا۔ ابھی تک تو میں چپ کر کے یہاں آفس میں بیٹھا تماشے دیکھ رہا ہوتا ہوں۔ میں اگر سڑکوں پر نکل آیا تو آپ کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔‘
یہ الفاظ تھے اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے جب انہوں نے پانچ ماہ قبل 23 جنوری کو سرکاری ٹیلی وژن پر ایک سوال و جواب کے سیشن کے دوران اپوزیشن کو خبردار کرتے ہوئے کہے تھے۔ 
اپریل میں اپوزیشن اتحاد پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوا تو عمران خان اپنی حکومت کے خلاف امریکی سازش کا بیانیہ لے کر سڑکوں پر نکل آئے اور نہ صرف عوامی جلسوں کا سلسلہ شروع کیا بلکہ سوشل میڈیا کو بھی اپنے بیانیے کو مقبول بنانے کے لیے منفرد انداز میں استعمال کیا۔
عمران خان نے نہ صرف اپوزیشن بلکہ عدلیہ اور دیگر اداروں پر بھی کھل کر تنقید کی اور دباؤ بڑھانے کی کوشش کرتے نظر آئے۔

عمران خان نے دباؤ کیسے بڑھانے کی کوشش کی؟ 

اپنے اقتدار کے آخری ایام میں عمران خان نے اپوزیشن کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کا تاثر دیے جانے پر ردعمل دیا اور کہا کہ ’انسان کو اچھائی اور برائی میں فرق کرنا ہوتا ہے، انسان کبھی نیوٹرل نہیں ہو سکتا۔ نیوٹرل جانور ہوتا ہے۔‘
انہوں نے نام لیے بغیر اسٹیبلشمنٹ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ‘میں نے نیوٹرلز کو خبردار کیا تھا کہ حکومت کے خلاف سازش کامیاب ہوئی تو معیشت تباہ ہو جائے گی۔‘
چیئرمین تحریک انصاف نے عدلیہ پر بھی کھل کر تنقید کی اور رات کو 12 بجے عدالت کھولنے پر سوالات اٹھائے۔
’مجھے ساری زندگی یہ یاد رہے گا کہ میرے خلاف رات کو 12 بجے عدالتیں کھولی گئیں۔‘

چیئرمین تحریک انصاف نے عدلیہ پر بھی کھل کر تنقید کی اور رات کو 12 بجے عدالت کھولنے پر سوالات اٹھائے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

عمران خان کے ان بیانات پر عدلیہ سمیت آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی متعدد بار وضاحت سامنے آئی ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کیسز کی سماعت کے دوران رات کو 12 بجے عدالتیں کھولنے پر وضاحت دے چکے ہیں۔ 
سپریم کورٹ کی جانب سے تفتیشی اداروں میں تبادلوں پر سوموٹو نوٹس لیا گیا تو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا کہ ’سپریم کورٹ نے عمران خان کے دباؤ میں آ کر سوموٹو نوٹس لیا ہے۔‘
مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے اپنے عوامی اجتماعات میں عدلیہ کی جانب سے سو موٹو نوٹس لینے پر سوالات اٹھائے اور کہا کہ ’یہ نوٹس کس کے کہنے پر لیے گئے؟‘

عمران خان کیا واقعی خطرناک ہو گئے ہیں؟ 

سیاسی تجزیہ کار رسول بخش رئیس نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس بات سے 100 فیصد متفق ہوں کہ وہ حکومت سے نکل کر زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وہ اس وقت اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے لیے خطرناک ہو چکے ہیں اور خطرناک کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت سے نکلنے کے بعد زیادہ مقبول اور طاقتور ہو چکے ہیں۔ عمران خان نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کر لیا ہے۔‘
رسول بخش رئیس کے مطابق ’عمران خان نے پورے ملک میں اس وقت اپنے چاہنے والوں کو جگا دیا ہے اور اس میں اضافہ ہوا ہے۔ بنیادی طور پر عمران خان ایک بار پھر سیاسی طور پر زندہ ہو گئے ہیں۔‘

رسول بخش رئیس کے مطابق ’عمران خان نے پورے ملک میں اس وقت اپنے چاہنے والوں کو جگا دیا ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

تاہم تجزیہ نگار اور سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق عمران خان کا بیانیہ عوام میں مقبول تو ضرور ہو رہا ہے لیکن وہ ملک کی سیاست میں کوئی اچھی روایت نہیں ڈال رہے۔
’جس طرح وہ صدر اور گورنر کے عہدوں کو استعمال کر رہے ہیں وہ آئین کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کر رہے۔‘
رسول بخش رئیس کا کہنا تھا ’اگر عمران خان کو پانچ سال پورے کرنے دیے جاتے تو شاید ان کو دوبارہ اتنی سیٹیں نہ ملتی لیکن اب انہوں نے ذہن میں دو تہائی اکثریت رکھی ہے اور اگر صاف شفاف انتخابات ہوئے تو اس میں مجھے کوئی شبہ نہیں کہ وہ دو تہائی اکثریت حاصل کر لیں۔
سہیل وڑائچ کے مطابق ’اس وقت ملک میں جو سیاسی بحران پیدا کیا جا رہا ہے اس سے تحریک انصاف کو فائدہ ہو رہا ہے یا نہیں لیکن اس سے ملک کا نقصان ضرور ہو رہا ہے۔‘

شیئر: