Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا سے ارجنٹائن تک فوڈ ایکسپورٹ پر پابندی سے مہنگائی کی نئی لہر کا خدشہ

وزیراعظم مودی کے آفس نے وزارت تجارت کو گندم برآمد کرنے کے پروگرام کو فوری روکنے کا حکم دیا۔ (فوٹو: روئٹرز)
انڈیا میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو گزشتہ مہینے ’دنیا کو کھلانے‘ کے منصوبے کو ختم کرنے میں صرف 24 گھنٹے لگے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اپریل میں نریندر مودی نے کہا تھا کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا میں پیدا ہونے والے اناج کی کمی کو پورا کرنے کے لیے انڈیا تیار ہے۔
انڈیا دنیا کا سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا دوسرا ملک ہے۔ عموما انڈیا ملک میں پیدا ہونے والے گندم کی بہت کم مقدار برآمد کرتا ہے اور زیادہ تر گندم ملکی ضرورت کے لیے رکھ لیتا ہے۔
12 مئی کو انڈیا کی وزارت تجارت و صنعت نے اعلان کیا تھا کہ وہ  رواں سال ایک کروڑ ٹن گندم برآمد کرنے کے لیے نو ممالک وفود بھیج رہا ہے۔
لیکن اس کے بعد سے سامنے آنے والے پریشان کن ڈیٹا نے سب کچھ تبدیل کر دیا۔  
سب سے پہلے انڈیا نے مئی کے شروع میں رواں سال کے  لیے گندم کی پیداوار کے تحمینے کو کم کر دیا کیونکہ اچانک آنے والے گرمی کی لہر نے پیدوار کو متاثر کیا۔ اس کے بعد 12 مئی کو سامنے آنے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہوا کہ ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی والے ملک میں یوکرین کی جنگ کے سبب تیل اور اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی آٹھ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔
 مہنگائی کی تازہ ترین لہر سے پریشان ہو کر وزیراعظم مودی کے آفس نے وزارت تجارت کو گندم برآمد کرنے کے پروگرام کو فوری روکنے کا حکم دیا۔
ایک سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ مہنگائی کے اعداد و شمار نے حکومت کو درمیانی رات کو گندم برآمد کرنے پر پابندی عائد کرنے پر مجبور کر دیا۔

کئی ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ خوراک کا موجودہ عالمی بحران 2008 کے بحران سے شدید تر ہوا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)

انڈیا کی جانب سے گندم  برآمد کرنے پر پابندی کی خبر سے شکاگو مرکنٹائل ایکسچینج میں گندم کے آئندہ کے سودوں کی قیمتوں میں چھ فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا۔
وزیراعظم مودی کے آفس یا انڈیا کے وزارت تجارت نے گندم کی برآمد پر پابندی کے حوالے سے روئٹرز کے سوال کا جواب نہیں دیا۔
خیال رہے انڈیا ان 19 ممالک میں شامل ہے جنہوں نے یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد سے فوڈز ایکسپورٹ پر پابندیاں عائد کر دی ہیں جس کی وجہ سے دنیا میں خوراک کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
یوکرین جنگ کے سبب کئی زرعی اشیا کی ترسیل میں خلل پیدا ہوا جس کے باعث نہ صرف قیمتیں بڑھی ہے بلکہ کئی ترقی پذیر ممالک میں بڑھتی قیمتوں کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔
دہلی سے کوالالمپور، بیونس آئرس سے بلگراڈ تک حکومتوں نے ایک ایسے وقت میں برآمدات پر پابندی عائد کر دی ہے جب کورونا کی وجہ سے ہونے والی معاشی نقصانات، شدید موسمیاتی اثرات اور خوراک کی ترسیل میں مشکلات نے پہلے سے دنیا میں بھوک میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے۔

یوکرین کی جنگ نے روس اور یوکرین سے زرعی اجناس کی ترسیل کو متاثر کیا۔ (فوٹو: روئٹرز)

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک نے اپریل میں یوکرین جنگ کے شروع ہونے سے قبل کہا تھا کہ دنیا کے 81 ممالک میں خوراک کے شدید عدم تحفظ کے شکار افراد کی تعداد 2019 کے مقابلے میں دو گنا اضافہ ہو کر 276 ملین ہو گئی ہے۔
جاری جنگ نے روس اور یوکرین سے زرعی اجناس کی ترسیل کو متاثر کیا۔ روس اور یوکرین زرعی اجناس کے حوالے سے دنیا کے پاور ہاؤس کہلاتے ہیں۔
ڈبلیو ٹی او کے رولز کے مطابق ممبر ممالک زرعی اجناس کی برآمد پر پابندی اس صورت میں عائد کر سکتے ہیں اگر ان اشیا کی ملک میں قلت ہو اور پابندی کی نوعیت عارضی ہو۔
انڈیا کے وزیر تجارت پیوش گوئل نے گزشتہ مہینے روئٹرز کو بتایا تھا کہ وہ ڈبلیو ٹی او اور عالمی مالیاتی فنڈ سے رابطے میں ہیں اور ان کو انڈیا کی خوراک کی ضروریات اور ملکی مارکیٹ میں قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے حوالے سے ملکی ترجیحات کے بارے میں آگاہ کر رہے ہیں۔
ورلڈ بینک گروپ سے وابستہ اکانومسٹ مائیکل روتا کا کہنا ہے کہ برآمدات پر لگائی جانے والی پابندیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے دیگر ممالک بھی اس طرح کے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔
کئی ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ خوراک کا موجودہ عالمی بحران 2008 کے بحران سے شدید تر ہوا ہے۔

شیئر: