Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان پناہ گزیں لڑکیوں کی زندگی سنوارنے والا استاد

اس سکول سے 285 لڑکیاں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرچکی ہیں
بائیس سالہ فریدہ نے 2016میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا تو اپنے گھر ہی نہیں بلکہ خاندان کی پہلی فرد تھیں  جنہوں نے ثانوی تعلیم حاصل کی ۔ آج وہ خود کو ایک کامیاب خاتون تصور کرتی ہیں جو استاد کی حیثیت سے نہ صرف علم کی روشنی پھیلارہی ہیں بلکہ گھر چلانے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہیں۔
ایسے قدامت پسند معاشرے میں جہاں لڑکیوں کا گھر سے نکلنا ہی معیوب سمجھا جاتا ہے ان کے لیے  یہ سفر آسان نہیں تھا۔ 
فریدہ اپنی کامیابی ظاہر پشتون کی جدوجہد کی مرہون منت سمجھتی ہیں۔
ظاہرپشتون فریدہ جیسی کئی لڑکیوں کوتعلیم یافتہ بناکر ان کی زندگیوں کو تبدیل کرچکے ہیں۔ وہ بلوچستان کے ضلع پشین کے علاقے سرانان کے افغان پناہ گزین کیمپ میں سکول کے استاد اور پرنسپل کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔

ظاہر پشتون افغان پناہ گزین کیمپ میں قائم سکول کے استاد ہیں

ظاہر پشتون گذشتہ ایک دہائی سے اس کیمپ میں لڑکیوں کی تعلیم کی مہم  چلارہے ہیں ۔لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ثقافتی رکاوٹوں، دھمکیوں ،ذاتی مشکلات اور وسائل کی کمی کے باوجود  34 سالہ ظاہر پشتون  نے  افغان پناہ گزین والدین کو اپنی بچیوں کو کچی آبادی میں قائم اسکول میں تعلیم  کے لیے بھیجنے پر قائل کیا۔
اس مہم اور جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ سرانان مہاجر کیمپ میں قائم ان کا تعلیمی ادارہ پاکستان بھر کے پناہ گزین کیمپوں کا واحد ہائی سکول ہے جہاں لڑکیاں  انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کرسکتی ہیں ۔
ظاہر  پشتون کہتے ہیں کہ افغانستان سے چار دہائیوں قبل نقل مکانی کرکے  پاکستان کے پناہ گزین کیمپوں میں بسنے والے خاندانوں میں اب بھی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس میں کوئی پڑھا لکھا  شخص نہیں اورافغان پناہ گزین بچوں خصوصاً لڑکیوں  کی اکثریت تعلیم سے محروم ہیں۔انہیں گھر کے اندر اور باہر سے پابندیوں اور معاشرتی دباؤکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ظاہر پشتون کا خاندان افغانستان کے صوبہ سر پل سے1987میں نقل مکانی کرکے سرانان کیمپ میں پناہ گزین ہوا۔ان کی پیدائش بھی اسی کیمپ میں ہوئی۔ ظاہر نے بتایا کہ افغان پناہ گزین کی حیثیت سے ہماری زندگی کافی مختلف اور مشکلات سے بھری ہوئی ہے۔ ہمارے کیمپ میں بجلی اور گیس کا کوئی بندوبست نہیں، پانی بھی خرید نا پڑتا ہے۔ ہمارے بچے اور نوجوان اینٹوں کی بھٹیوں اور باغات میں کم  اجرت پر مزدوری کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ ہنر مند اور تعلیم یافتہ نہیں۔
انہوں نے بتایاکہ ’مجھے شروع سے اس بات کا احساس تھا کہ ان مشکلات کا حل صرف تعلیم ہے  اس لیے میں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد استاد بننے کا فیصلہ کیا اور سرانان کیمپ میں قائم سکول  میں پڑھانا شروع کیا ۔ اب میں اس سکول کا پرنسپل ہوں ۔‘
 ظاہر پشتون کا کہنا ہے کہ جس سکول کو آج وہ کامیابی سے چلارہے ہیں اسے ماضی میں کئی بار طالب علم نہ ہونے اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر بند کرنا پڑا۔1996 میں عالمی ادارے ’سیو دی چلڈرن‘ نے یہ سکول قائم کیا ۔عالمی ادارہ خوراک نے بیٹیوں کو پڑھانے والے والدین کو راشن دینا شروع کیا مگر اس کے باوجود وہ انہیں قائل نہیں کرسکے۔
’2008 میں ایسا موقع بھی آیا کہ 50 ہزار کی آبادی والے اس پناہ گزین کیمپ کے سکول میں چند طالب علم بھی نہیں تھے اس لیے سیو دی چلڈرن نے سکول بند کردیا ۔‘
ظاہر پشتون کا کہنا ہے کہ جب سکول بند ہوا تو انہوں نے سوچا کہ وہ پہلے ہی پسماندگی کا شکار ہے،  بیشتر نوجوان بے روزگار ہیں، لڑکیوں کو اپنا نام تک لکھنا نہیں آتا اگر انہیں تعلیم یافتہ نہ بنایا تو وہ یوں ہی پسماندگی اور جہالت کے اندھیروں میں رہیں گے۔
’ تب میں نے فیصلہ کیا کہ سکول کو ہر صورت فعال بنانا ہے اور  سب سے زیادہ توجہ لڑکیوں کی تعلیم پر دینی ہے کیونکہ ایک تعلیم یافتہ ماں ، بہن اور بیٹی پورے گھر کو تعلیم سے روشناس کراسکتی ہیں ۔‘
ظاہر پشتون نے بتایا کہ انہوں نے گھر گھر جاکر مہم چلائی، ہرگلی اور ہر گھر گئے ، لڑکیوں کے والدین، ان کے بھائیوں اور سرپرستوں سے ملے انہیں اسلام  کی روشنی میں تعلیم کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس دوران  انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں تک دی گئیں جس کی وجہ سے انہیں رپوش بھی ہونا پڑالیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری اور اپنے عزم پر قائم رہتے ہوئے مزید محنت کی۔

سرانان کیمپ میں چھ سکول  ہیں جن میں سے 40 سے زائد فی میل ٹیچر ہیں

ظاہر پشتون کے مطابق لڑکیوں کی تعلیم  کی مخالفت کو یہاں ثقافتی اقدار کا نام دیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کا کم عمری میں ہی گھر سے نکلنا بند کردیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سکول جانے والی لڑکیوں کو برے القابات سے پکارا جاتا تھا لیکن آج صورتحال مختلف ہے کیونکہ  یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیاں مردوں سے کہیں زیادہ کامیاب زندگی گزار رہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آج ان کے سکول میں لڑکوں سے زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہے ۔ 1100 طالب علموں میں 600 لڑکیاں  ہیں ۔2016 میں یہ پاکستان کے تمام پناہ گزین  کیمپوں کا واحد ہائی سکول بنا جہاں لڑکیاں بارہویں جماعت تک پڑھ سکتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کافی تگ و دو کے بعد سکول کی کابل سے رجسٹریشن کراکر اسے ہائی سکول  کا درجہ دلایا ۔2016 سے لے کر اب تک ان کے سکول سے 285 لڑکیاں انٹر میڈیٹ تک تعلیم حاصل کرچکی ہیں جن میں سے 19 اسی سکول میں ٹیچر کی حیثیت سے پڑھارہی ہیں ۔ سرانان کیمپ میں چھ سکول  ہیں جن میں سے 40 سے زائد فی میل ٹیچر ہیں اور تمام ہمارے سکول سے پڑھی ہوئی ہیں۔ پہلے سکول میں لڑکیوں کو پڑھانے کے لیے کوئٹہ سے ٹیچرکی خدمات حاصل کرنا پڑتی تھی ۔

ظاہر پشتون گذشتہ ایک دہائی سے اس کیمپ میں لڑکیوں کی تعلیم کی مہم  چلارہے ہیں

ان کا کہنا ہے کہ یہ  استانیاں نہ صرف اپنے جیسے مزید لڑکیوں کو تعلیم یافتہ بنارہی ہیں بلکہ اچھی تنخواہیں لے کر گھر چلانے میں بھی شوہر، والدین اور بھائیوں کا ساتھ دے رہی ہیں۔اسی طرح کچھ لڑکیاں مڈ وائف کا کورس کرکے افغانستان میں کام کررہی ہیں ۔
’جب لوگوں نے دیکھا کہ لڑکیوں کو تعلیم دلانے والے خاندانوں کی زندگی  میں مثبت تبدیلیاں آرہی ہیں تو انہوں نے بھی اپنی بیٹیوں اور بہنوں  کو سکول بھیجنا شروع کیا۔ آج ہمارے مہاجر کیمپ میں تین ہزار سے زائد لڑکیاں  زیر تعلیم ہیں ۔‘
سکول ٹیچر فریدہ بھی اسی سکول سے پڑھی اور پھر ٹیچر بنیں۔ان کا خاندان افغانستان کے صوبہ فاریاب سے تین دہائیاں قبل نقل مکانی کرکے سرانان پناہ گزین کیمپ  میں آکر بسا ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے خاندان میں کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں ، وہ اپنے خاندان کی پہلی فرد تھی جنہوں نے 12ویں تک پڑھا ۔
فریدہ  نے بتایا کہ کیمپ کے باقی  خاندانوں کی طرح ان کے والدین اور بھائی ان کی تعلیم کے خلاف تھے لیکن ظاہر پشتون کی  کوششوں سے وہ قائل ہوئے ۔ 

پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں افغان پناہ گزین مہاجر کیمپوں میں رہتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

فریدہ نے بتایا کہ ان کے بھائی ایران میں مزدوری کرتے ہیں وہ اپنی تنخواہ سے گھر چلانے میں والدین اور بھائیوں کی مدد کرتی ہیں۔ خاندان کے وہ لوگ جو پہلے طرح طرح کی باتیں کرتے تھے اور ان کی سکول جانے کے مخالف تھے آج وہ بھی انہیں دیکھ کر اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو سکول بھیج رہے ہیں۔
ظاہر پشتون نے بتایا کہ ان کے سکول میں کوئی کمپیوٹر لیب اور سائنس لیبارٹری نہیں، ان کی خواہش ہے کہ عالمی ادارے اور حکومت پاکستان سکول میں مزید سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ  کیمپ میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے  ادارہ قائم کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونےو الی لڑکیاں مزید پڑھنا چاہتی ہیں۔ زیادہ تر لڑکیاں تعلیم کے مزید مواقع اور روزگار نہ ہونے کی وجہ سے گھر بیٹھ گئی ہیں ۔ان کے لیے کوئٹہ جانا بہت مشکل ہے ،حکومت کو چاہیے کہ وہ افغان پناہ گزین لڑکیوں کو کیمپ کے اندر مزید تعلیمی سہولیات فراہم کریں۔

شیئر: