تبوک کے شمال مغرب میں واقع حقل شہر کے قریب سعودی ورثے کی پہنچان علقان کا قریہ ہے، جسے سعودی عرب کا انتہائی خوبصورت گاؤں اور مملکت کی تاریخی میراث کہا جاتا ہے۔
عرب نیوز کے مطابق حقل کو ’برف کا شہر‘ بھی کہتے ہیں جو موسمِ سرما میں سیاحوں کا ایک من پسند مقام ہے کیونکہ اس زمانے میں تمام علاقہ برف سے ڈھک جاتا ہے۔
مزید پڑھیں
-
دومۃ الجندل کا تاریخی قلعہ ’مارد‘ سیاحوں میں مقبول کیوں؟Node ID: 874771
-
سعودی ہیریٹج کمیشن میں مزید 744 تاریخی مقامات کا اندراجNode ID: 891062
سردیوں میں علقان، یہاں آنے والوں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ اس قریے کے گھروں کو دیکھیں جنھیں ریتیلے پتھروں کو استعمال میں لا کر زمین سے قدرے اونچا بنایا جاتا ہے۔
یہ عمارتیں ریجن کے لاثانی فنِ تعمیر اور اس کی بناوٹ کے دوران استعمال کی گئی دیگر مہارتوں کو نمایاں کرتی ہیں۔
شمالی سعودی عرب میں علقان کا گاؤں، تبوک کے شہر سے تقریباً 170 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور اونچے پہاڑوں اور سرخ ریت کے انباوں میں گھرا ہوا ہے۔ اس کی خوبصورتی، گاؤں کے وسیع منظر نامے میں ہر جگہ دکھائی دیتی ہے۔
علقان کو 1934 میں شاہ عبدالعزیز کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس گاؤں میں 20 گھر ہیں جنھیں سرخ پتھروں اور گارے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ ان کی چھتیں پام کے تنوں اور چوڑے پتوں سے بنائی جاتی ہیں۔ کسی زمانے میں یہ عمارتیں ریجن کی پہلی حکومت کے ملازمین اور سرکاری دفتروں کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔

آج اس قریے کا ’نیشنل رجسٹر فار آرکیٹیکچرل ہیریٹیج‘ میں باضابطہ اندراج ہے۔ مملکت کے ورثے کا کمیشن، ملک بھر میں ایسی تاریخی سائٹس کو دستاویزی شکل دینے، انھیں تحفظ فراہم کرنے اور ڈیجیٹائز کرنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے۔
گاؤں کے قریب علقان کا کسٹم چیک پوائنٹ ہے جسے 1965 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس علاقے میں کئی تاریخی کنوئیں بھی ہیں جو مقامی کمیونیٹیوں کو پانی فراہم کیا کرتے تھے۔ ان میں ابو العلق کا کنواں بھی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا وجہ سے گاؤں کا نام علقان رکھا گیا۔ کچھ دوسرے افراد کہتے ہیں کہ گاؤں کا نام دراصل ان چھوٹے ذروں پر رکھا گیا ہے جو کنویں کے پانی میں کبھی کبھی نظر آتے ہیں۔

ایک پتھریلے پہاڑ پر واقع اس گاؤں کو پہلے پہل یہاں بسنے والوں نے کافی غور وفکر کر کے آباد کیا تھا۔ انھوں نے اس جگہ کو افادیت کے اعتبار سے چُنا تھا خاص طور پر اس خیال کو ذہن میں رکھ کر کہ ہوا کس رخ پر چلتی ہے، یہاں بارش کتنی ہوتی ہے اور یہ مقام پرائیویسی کے لحاظ سے کیسا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ صحرا کے ماحول سے کس قدر واقف تھے۔
علقان کی بڑی پہچان یہ ہے کہ یہاں برف باری ہوتی ہے جو سعودی عرب میں لگ بھگ نایاب منظر ہے۔ 1945 اور پھر 1965 میں یہاں برفانی طوفان آئے تھے اور کئی دنوں تک برفباری ہوتی رہی تھی۔ اسی برفباری کی وجہ سے علقان کو موسمِ سرما میں ایک پُرسکون اور خوشگوار مقام کی شہرت حاصل ہوگئی۔