Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس اور ٹیکس کا ریکارڈ طلب

پی اے سی چیئرمین کے مطابق پاکستان میں غیر معیاری گاڑیاں تیار ہو رہی ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
آڈٹ حکام کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کاریں بنانے والی کمپنیوں کے پاس لوگوں کا ڈیڑھ سو ارب روپے سے زائد پیسہ پڑا ہے جبکہ گاڑیوں کی بروقت فراہمی بھی ممکن نہیں ہو پا رہی۔ 
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین نور عالم خان نے کمپنیوں کی جانب سے مالی تفصیلات اور گاڑیوں کی فراہمی میں تاخیر پر معاملہ نیب کو بھجوانے کا عندیہ دیا ہے۔
چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے کہا کہ گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیں اور ادائیگی بھی ساتھ ہی لی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں کی کوالٹی بھی نہیں اور نہ ہی گاڑیوں میں سیفٹی کے اقدامات ہیں، اگر مقامی سطح پر معیاری گاڑیاں نہیں بنتیں تو پھر باہر سے امپورٹ کی اجازت دینی چاہیے۔
نور عالم خان نے مزید کہا کہ کار مینوفیکچرنگ کمپنیاں جاپان اور دیگر ملکوں میں جو معیار فراہم کر رہی ہیں وہ پاکستان میں نہیں دے رہیں۔
’بریکیں ٹھیک نہیں ہوتیں۔ آپ یورو ٹو پر ہیں دنیا یورو فائیو تک پہنچ چکی ہے، دنیا الیکٹرک کار کی طرف چلی گئی ہے۔ جب تک پاکستانیوں کو معیاری گاڑیاں نہیں ملیں گی ہم آپکو نہیں چھوڑیں گے۔‘
نمائندہ کار مینوفیکچرنگ کمپنی نے کمیٹی کو بتایا کہ سیفٹی کے لیے ڈبلیو پی 29 کے قوانین پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔

کاریں بنانے والی کمپنیوں کے پاس لوگوں کے ایک ارب سے زائد پڑے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

آڈیٹر جنرل نے کمیٹی کو بتایا کہ ’گاڑیوں کی کمپنیوں کے پاس لوگوں کے ڈیڑھ سو ارب سے زائد پڑے ہیں۔ سوزوکی، ہنڈا، انڈس موٹر سے فنانشل سٹیٹمنٹ مانگی لیکن نہیں دی گئی۔‘
اس پر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ گاڑیوں پر اون کے ٹرینڈ کو وزارت صنعت و پیداوار نے فروغ دیا ہے۔ گاڑیوں کے پلانٹ فُل کپیسٹی پر چلائے جائیں تو گاڑیاں فوری ڈیلیور کی جا سکتی ہیں لیکن وزارت صنعت و پیداوار گاڑیوں پر اون کو روکنے میں مکمل ناکام ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری صنعت و پیداوار نے کمیٹی کو بتایا کہ کار کمپنیوں نے وزارت کو ریکارڈ فراہم نہیں کیا، جس پر چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا کہنا تھا کہ ’آپ چاہتے ہیں یہ کیسز میں نیب کو بھیجوں۔‘
کمیٹی چیئرمین نے ہدایت کی کہ سیکرٹری فنانس اور سٹیٹ بینک کار مینوفیکچررز کے بینک اکاؤنٹس کے ریکارڈ دس دن میں فراہم کرے، اور چیئرمین ایف بی آر کار مینوفیکچرر کمپنیوں کی ٹیکس تفصیلات بھی دس دن میں کمیٹی کو فراہم کریں۔

شیئر: