آڈٹ حکام کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں کاریں بنانے والی کمپنیوں کے پاس لوگوں کا ڈیڑھ سو ارب روپے سے زائد پیسہ پڑا ہے جبکہ گاڑیوں کی بروقت فراہمی بھی ممکن نہیں ہو پا رہی۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین نور عالم خان نے کمپنیوں کی جانب سے مالی تفصیلات اور گاڑیوں کی فراہمی میں تاخیر پر معاملہ نیب کو بھجوانے کا عندیہ دیا ہے۔
چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے کہا کہ گاڑیوں کی ڈیلیوری میں تاخیری حربے اختیار کیے جاتے ہیں اور ادائیگی بھی ساتھ ہی لی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟Node ID: 525291
-
بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے ’روشن اپنی کار‘ سکیم کیا ہے؟Node ID: 562256
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں کی کوالٹی بھی نہیں اور نہ ہی گاڑیوں میں سیفٹی کے اقدامات ہیں، اگر مقامی سطح پر معیاری گاڑیاں نہیں بنتیں تو پھر باہر سے امپورٹ کی اجازت دینی چاہیے۔
نور عالم خان نے مزید کہا کہ کار مینوفیکچرنگ کمپنیاں جاپان اور دیگر ملکوں میں جو معیار فراہم کر رہی ہیں وہ پاکستان میں نہیں دے رہیں۔
’بریکیں ٹھیک نہیں ہوتیں۔ آپ یورو ٹو پر ہیں دنیا یورو فائیو تک پہنچ چکی ہے، دنیا الیکٹرک کار کی طرف چلی گئی ہے۔ جب تک پاکستانیوں کو معیاری گاڑیاں نہیں ملیں گی ہم آپکو نہیں چھوڑیں گے۔‘
نمائندہ کار مینوفیکچرنگ کمپنی نے کمیٹی کو بتایا کہ سیفٹی کے لیے ڈبلیو پی 29 کے قوانین پر عمل درآمد کر رہے ہیں۔
