Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جوڈیشل کمیشن اجلاس موخر ہوا یا نامزد کردہ ججز کے نام مسترد ہوئے؟

’یہ پہلا موقع ہے کہ چیف جسٹس کے نامزد کردہ ججز کے نام مسترد ہوئے ہیں‘ (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ججز تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کے پانچ نامزد کردہ ججز کے نام زیر غور آئے، تاہم تفصیلی بحث کے بعد  اجلاس مؤخر کر دیا گیا۔
تاہم پاکستان بار کونسل کے نمائندے اختر حسین نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ جوڈیشل کمیشن نے  پانچوں ججز کے نام مسترد کثرت رائے سے مسترد کیا۔ جوڈیشل کمیشن کے ممبر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی چیف جسٹس اور کمیشن کے ارکان کے نام اپنے خط میں چار ناموں کے مسترد ہونے کا ذکر کیا ہے۔ 
جمعرات کو سپریم کورٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان کے نامزد کردہ ناموں پر جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں تفصیلی بحث ہوئی جس کے بعد کونسل کے چیئر مین نے اجلاس مؤخر کرنے کی تجویز دی تاکہ چیف جسٹس نامزد ججز کے حوالے سے اضافی معلومات سامنے رکھ سکیں۔
سپریم کورٹ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر چیف جسٹس پاکستان مناسب سمجھیں تو وہ اس فہرست میں مزید نام بھی شامل کر سکتے ہیں۔
بیان کے مطابق اٹارنی جنرل پاکستان، جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس سرمد جلال عثمانی نے اجلاس مؤخر کرنے کی تجویز کی حمایت کی۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آئندہ اجلاس کی تاریخ کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کے چیئر مین اراکین کو آگاہ کر دیں گے۔
دوسری جانب جوڈیشنل کمیشن کے رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال اور جوڈیشل کمیشن کے اراکین کے نام خط تحریر کیا ہے۔
انہوں نے اپنے خط میں اجلاس کے میٹنگ منٹس جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’قوم کی نظریں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی طرف ہیں اور انہیں یہ جاننے کا آئینی حق حاصل ہے کہ کیا فیصلہ ہوا۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے خط اور سپریم کورٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مندرجات میں بہت زیادہ فرق ہے۔ جوڈیشل کمیشن کی جانب سے چیف جسٹس کے نامزد کردہ ناموں کو مبینہ طور پر مسترد ہونے کی خبر کو مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف نے بھی خوش آئند قرار دیا تھا۔
خیال رہے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس جسٹس عمر عطا بندیال کے نامزد کردہ پانچ ججز کے نام زیر غور آئے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اٹارنی جنرل ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔
اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس شاہد وحید، پشاور ہائی کورٹ کے جج جسٹس قیصر رشید خان، سندھ ہائی کورٹ سے جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شفیع صدیق اور جسٹس نعمت اللہ کو سپریم کورٹ کے ججز بنانے پر غور کیا گیا تھا۔
اجلاس میں زیر غور آنے والے ججز کی سنیارٹی پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا تھا۔ سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک روز قبل ہی جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کرنے کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا۔

 جسٹس فائز عیسیٰ نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس مؤخر کرنے کے لیے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا (فائل فوٹو: سپریم کورٹ)

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خط میں کہا تھا کہ میں اس وقت چھٹیوں پر بیرون ملک ہوں، جب رخصت پر گیا تو اس وقت جوڈیشل کمیشن کا کوئی اجلاس شیڈول نہیں تھا، میرے بیرون ملک جانے کے بعد جوڈیشل کمیشن کے دو اجلاس بلائے گئے جب کہ میری غیرموجودگی میں جوڈیشل کمیشن کا تیسرا اجلاس 28 جولائی کو بلالیا گیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ چیف جسٹس جوڈیشل کمیشن کے فورم کو مضحکہ خیز نہ بنائیں۔ جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس کے پہلے سے سلیکٹڈ ناموں پر غور کی روایت ختم ہونی چاہیے۔  
’چیف جسٹس کی طرف سےججز کی تعیناتی کے معاملے پر جلدبازی سوالیہ نشان ہے، چیف جسٹس چاہتے ہیں2347 صفحات پعر مشتمل دستاویز کا ایک ہفتے میں جائزہ لیا جائے۔‘
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس ہائی کورٹ اور  سینیئر ججز کو بائی پاس کرنے سے پہلے نامزدگی کا طریقہ کار زیرغور لایا جائے کیونکہ سپریم کورٹ کا سینیئر ترین جج ججز کی نامزدگی کا طریقہ کارطے کرنے میں ناکام رہا ہے۔

شیئر: