Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ججز کے تقرر کے لیے مسلسل دوسرا اجلاس مؤخر، وجہ کیا؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال اعلیٰ عدلیہ میں ججز تقرر پر اعتراضات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی
پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کے جوڈیشل کمیشن کے مسلسل دو اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوئے اور سندھ ہائی کورٹ کے بعد لاہور ہائی کورٹ میں ججوں کی مستقلی کا معاملہ مؤخر کر دیا گیا ہے۔
بدھ کو لاہور ہائی کورٹ کے 13 ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع اور مستقلی کے لیے طلب کیے گئے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس صرف پانچ منٹ کے بعد ہی مؤخر کر دیا گیا۔
اجلاس مؤخر کرنے کی وجہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے طبعیت کی خرابی بتائی گئی تاہم سینیئر وکلا اور بار ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے مطابق طریقہ کار پر اختلاف کے باعث جوڈیشل کمیشن کے ارکان نے بحث مؤخر کی۔
ایک روز قبل منگل کو سندھ ہائی کورٹ میں سات ججز کے لیے تجویز کیے گئے ماتحت عدلیہ کے ججز اور وکلا کے ناموں پر شدید اختلافات سامنے آئے تھے اور پانچ گھنٹے جاری رہنے کے بعد اجلاس بغیر کسی نتیجے کے مؤخر کر دیا گیا تھا۔

ججز تقرر کے طریقہ کار پر کس کو کیا اعتراض؟

جوڈیشل کمیشن کے سینیئر رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے چھٹیوں کے دوران ججز تقرر کے لیے اجلاس بلائے جانے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام خط نے اس معاملے پر اختلافات کو عام کر دیا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سندھ ہائی کورٹ میں ججز کی نامزدگی اور لاہور ہائی کورٹ میں ججز کی مستقلی کے اجلاس کو طریقہ کار کے خلاف قرار دیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے سیشن جج امجد علی بوہیو، سیشن جج سعد قریشی اور انسداد دہشت گری کی عدالت کے جج راشد سولنگی کے علاوہ چار وکلا ارباب ہاکڑو، عبدالرحمان ایڈووکیٹ، خرم رشید اور خادم حسین سومرو کے نام ہائیکورٹ کا جج لگانے کے لیے تجویز کیے تھے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے مختصر گفتگو میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ تمام ناموں پر حتمی فیصلے کو متفقہ طور پر مؤخر کر دیا گیا۔
جوڈیشل کمیشن میں پاکستان بار کونسل کے نمائندے ایڈووکیٹ اختر حسین نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اجلاس میں وکلا تنظیم کے اعتراض کو اٹھایا گیا کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ نے لسانی بنیادوں پر دباؤ میں آ کر دو طے شدہ نام فہرست سے نکال دیے۔

گزشتہ کئی برس سے وکلا تنظمیں سپریم کورٹ میں جونیئر ججز کو لانے کے خلاف احتجاج کرتی رہی ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی

بار کونسل کے نمائندے کے مطابق ایڈوکیٹ ثنا اکرم منہاس اور ایڈوکیٹ کاشف سرور پراچہ کے خلاف مخالفین نے مہم چلائی تھی کہ ان کا تعلق سندھ سے نہیں اور یہ کہ ان کے والدین سندھ میں باہر سے آئے تھے۔
سندھ ہائی کورٹ میں ججز لگانے کے لیے جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ شریک ہوئے کیونکہ صوبے میں وزارت قانون کا قلمدان بھی ان کے پاس ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سپین سے ویڈیو لنک رابطے پر اجلاس میں شریک رہے اور بحث میں حصہ لیا۔
سینیئر قانون دانوں کے مطابق اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے تقرر کا معاملہ گزشتہ کئی برس سے تنازع کا شکار ہے اور وکلا تنظیمیں طریقہ کار پر سوال اٹھاتی آئی ہیں۔
قبل ازیں ہائی کورٹس سے جونیئر ججز کو سپریم کورٹ لانے پر بھی وکلا تنظمیوں نے احتجاج کیا تھا۔

سپریم کورٹ میں کتنے ججز کی اسامیاں خالی ہیں؟

اس وقت سپریم کورٹ میں بھی تین ججز کی اسامیاں خالی ہیں اور جوڈیشل کمیشن کا اس حوالے سے گزشتہ تین ماہ کے دوران کوئی اجلاس منعقد نہیں کیا جا سکا۔
آئین کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت کُل 17 ججز ہو سکتے ہیں تاہم گزشتہ چند ماہ سے عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس کے علاوہ 13ججز کام کر رہے ہیں۔

جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کیا ہے؟

سپریم کورٹ میں جج لگانے کے لیے جوڈیشل کمیشن کے نو مستقل ارکان ہوتے ہیں۔ آئین کے مطابق چیف جسٹس کمیشن کے چیئرمین جبکہ چار سینیئر ججز کے علاوہ ایک ریٹائرڈ جج ارکان میں شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور وکلا کی تنظیم پاکستان بار کونسل کا ایک نمائندہ بھی کمیشن میں نامزدگیوں پر بحث اور ووٹ دینے کا اہل ہے۔

آئین کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت کُل 17 ججز ہو سکتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پی

ہائی کورٹس میں جج لگانے کے لیے نو رکنی کمیشن میں متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، ایک سینیئر جج، صوبائی وزیر قانون اور صوبائی بار کونسل کے نمائندے بھی شامل ہوتے ہیں۔

اعلیٰ عدلیہ میں نئے ججز کی منظوری کیسے دی جاتی ہے؟

سپریم کورٹ میں جج لگانے کے لیے نام چیف جسٹس تجویز کرتے ہیں جبکہ ہائی کورٹ میں متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نامزدگی کرتے ہیں۔
جوڈیشل کمیشن میں ان ناموں پر بحث ہوتی ہے اور منظوری کے بعد سفارشات ججز تقرر پارلیمانی کمیٹی کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔
پارلیمانی کمیٹی میں اپوزیشن اور حکومت کے چار، چار ارکان شامل ہیں اور اگر پارلیمانی کمیٹی 14 دن میں ان ناموں پر غور نہیں کرتی تو یہ نام حتمی تعیناتی کے لیے منظور تصور کر لیے جاتے ہیں۔ اور صدر کی جانب سے وزارت قانون کے ذریعے نوٹیفیکیشن جاری کیا جاتا ہے۔

شیئر: