Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لبنان میں روٹی خریدنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہو کر ’اذیت ناک‘ انتظار

بریڈ کے ایک پیکٹ کی قیمت سرکاری طور پر 13 ہزار لبنانی پاؤنڈ مقرر ہے۔ فوٹو: روئٹرز
معاشی بحران کے شکار لبنان میں شہری ایک وقت کی روٹی خریدنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہو کر طویل انتظار کی اذیت سے گزر رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق وہ بھی دور تھا جب لبنان کو ’مشرق وسطیٰ کا سوئٹزرلینڈ‘ پکارا جاتا تھا مگر سنہ 2019 سے معاشی بحران میں گھر جانے کے بعد اب شہری مناسب خوراک نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں۔
سنہ 2020 میں قومی قرضے کے باعث دیوالیہ ہو جانے والے لبنان کی کرنسی کی قدر 90 فیصد تک گر چکی ہے۔
ورلڈ بینک نے لبنان کے معاشی بحران کو 19 ویں صدی کے بعد سے آنے والا بدترین بحران قرار دیا ہے جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق پانچ میں سے چار لبنانی شہری خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
بین الاقوامی قرض دہندگان کی جانب سے نئی امداد کے اجرا سے قبل معاشی اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا جس کی وجہ سے مشکلات کی شکار حکومت زیادہ تر ضروری اشیا پر سبسڈی ختم کرنے پر مجبور ہو گئی ہے تاہم گندم ابھی تک شہریوں کو کم نرخ پر فراہم کی جا رہی ہے۔
کم قیمت بریڈ اور روٹی کے نرخ بھی بڑھ گئے ہیں اور اگر ان پر سے سبسڈی ختم کی گئی تو مزید مہنگائی کا خدشہ ہے۔ بیکریوں کی جانب سے گندم کی ذخیرہ اندوزی شروع کیے جانے کے باعث شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
بریڈ کے ایک پیکٹ کی قیمت سرکاری طور پر 13 ہزار لبنانی پاؤنڈ مقرر ہے جبکہ یہ بلیک مارکیٹ میں 30 ہزار لبنانی پاؤنڈ کی مل رہی ہے۔

لبنان سنہ 2020 میں قومی قرضوں کی عدم ادائیگی کے باعث دیوالیہ ہو گیا تھا۔ فوٹو: روئٹرز

ایک شہری خلیل منصور نے اے ایف پی کو بتایا کہ بریڈ کے لیے گھنٹوں قطار میں کھڑے رہنے کی اذیت سہتے ہیں اور کسی دن وہ بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔
’گزشتہ ہفتے ہم نے تین دن بریڈ نہیں خریدی کیونکہ 30 ہزار پاؤنڈ میں اس کو خریدنے کی استطاعت نہیں تھی۔‘
منصور اور اُن جیسے زیادہ تر لبنانیوں کے لیے روٹی خریدنے کا مطلب بیکریوں کے باہر لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑے رہنا ہے اور بعض اوقات جب ان کی باری آتی ہے تو بیکریوں میں روٹی ختم ہو جاتی ہے۔
بیروت کی ایک بیکری کے باہر کھڑے خلیل منصور نے کہا کہ ’آج میں تین گھنٹے قطار میں کھڑا تھا، گزشتہ روز ڈھائی گھنٹے۔ اب اس سے آگے کیا ہے؟‘
پیسٹری بنانے کی دکان پر کام کرنے والے خلیل منصور ماہانہ 50 ڈالر کماتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں نے اپنے خاندان کا پیٹ تو پالنا ہے، اس کے علاوہ میں کیا کر سکتا ہوں؟‘

شیئر: