Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں بارشوں سے مزید 9 افراد ہلاک، کوئٹہ کراچی شاہراہ ایک ہفتہ بعد بحال

لیویز کے مطابق کوہلو کو سبی سے ملانے والی شاہراہ لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے ارنڈ کے مقام پر بند ہوگئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بلوچستان میں بارشوں کی شدت میں کمی آگئی ہے تاہم ہلاکتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور مزید نو اموات کے ساتھ صوبے میں بارشوں اور سیلابی ریلے سے ہلاکتوں کی تعداد 136 تک پہنچ گئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ کوئٹہ کراچی شاہراہ کو ایک ہفتہ بعد ٹریفک کے لیے بحال کردیا گیا تاہم آواران اور جھل مگسی سمیت کئی اضلاع کا اب تک باقی صوبے سے رابطہ منقطع ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان میں ایک ہفتہ قبل شروع ہونے والے مون سون کے تیسرے سپیل کی شدت میں کمی آگئی ہے۔ ہفتہ کی شام اور اتوار کو شیرانی، ژوب، زیارت، لورالائی، دالبندین، لسبیلہ، گوادراور خضدار میں بارش ہوئی۔
لسبیلہ میں صورتحال بدستور خراب ہے اور اوتھل، لاکھڑا، دریجی، کنراج، بیلہ سمیت دیگر علاقوں میں درجنوں دیہاتوں کا زمینی رابطہ ایک ہفتہ بعد بھی بحال نہیں ہوسکا ہے۔
لسبیلہ کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق پاک فوج، ایف سی، پاک بحریہ، پاک فضائیہ، نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور پی ڈی ایم اے سمیت دیگر متعلقہ محکموں اور اداروں کے ساتھ مل کر امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔ فضائی ریلیف آپریشن بھی جاری ہے جس کے ذریعے پھنسے ہوئے افراد تک خوراک پہنچائی جاری ہے۔
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مطابق کوئٹہ کراچی این 25 شاہراہ کو اتوار کی شام کو لنڈا کے مقام پر متبادل راستہ بنا کر ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بحال کردیا گیا۔ پل اور سڑک سیلابی ریلے میں بہنے سے کوئٹہ کراچی شاہراہ ایک ہفتہ سے بند تھی جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ پھنسے ہوئے تھے۔
لسبیلہ سے متصل وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کے آبائی ضلع آواران کا زمینی رابطہ بھی ابھی تک باقی ملک سے منقطع ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر اس کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ بحالی کا کام جاری ہے۔
آواران کی تحصیل مشکے سے بی این پی کے ضلعی رہنما جاوید شاہوانی نے بتایا کہ یونین کونسل پروار کے علاقے منگلی، دائرہ، مسکی، بھنڈکی، ملنگ گوٹھ، خان محمد گوٹھ، جلال گوٹھ اور دیگر علاقے دریائے تنک میں طغیانی کے سبب باقی ضلع سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ علاقے میں اشیا خورد و نوش کی کمی پائی جاتی ہے۔

جھل مگسی کا رابطہ بھی اب تک باقی ملک سے بحال نہیں ہوسکا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

آواران کے رہائشی ایا ز شاہوانی نے فیس بک پر لکھا ہے کہ آواران کی تمام تحصیلوں کا ایک مہینے سے ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہے۔ سیلابی ریلوں سے کپاس، پیاز اور کھجور کی تیار فصل تباہ ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کا آبائی ضلع ہونے کے باوجود اب تک لوگ امداد سے محروم ہیں۔
جھل مگسی کا رابطہ بھی اب تک باقی ملک سے بحال نہیں ہوسکا۔ گنداواہ سمیت ضلع کے دیگر علاقوں میں اب تک کئی فٹ پانی جمع ہے اور لوگوں نے اونچے مقامات پر پناہ لی ہوئی ہیں۔ زمینی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے متاثرین تک خوراک پہنچائی جاری ہے۔
جعفرآباد کے علاقے گنداخہ میں کینال کے قریب رہنے والے درجنوں افراد سیلابی ریلوں کے باعث بے گھر ہوگئے جن کے لیے انتظامیہ نے عارضی ریلیف کیمپ قائم کردیا ہے۔
کوہلو کے علاقے ماونداور تمبو میں موسلا دھار بارش کے بعد ندی نالوں میں طغیانی آگئی ہے۔ ماوند اور منجھرا کے ندی نالوں میں سیلابی ریلا گزرنے کے باوجود انتظامیہ نے شہریوں کو غیر ضروری سفر نہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سینجاڑ، مری کالونی، کلی فیض محمد میں چھتیں اور دیواریں گرنے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ کلی علن میں چھت گرنے سے سے ایک شخص زخمی ہوا۔ گرسنی، لاسے زئی میں سیلابی ریلوں نے فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ جبکہ دریائے بیجی میں اونچے درجے کے سیلابی ریلے گزر رہا ہے۔
لیویز کے مطابق کوہلو کو سبی سے ملانے والی شاہراہ لینڈ سلائیڈنگ اور سیلابی ریلوں کی وجہ سے ارنڈ کے مقام پر بند ہوگئی ہے جس کی وجہ سے مسافر پھنس گئے ہیں۔ کمشنر سبی ڈویشن بالاچ عزیزکا کہنا ہے کہ قومی شاہراہ کو کئی گھنٹوں کی کوششوں کے بعد ٹریفک کے لیے دوبارہ بحال کردیا گیا ہے۔
چاغی میں سیلابی ریلوں کی وجہ سے تباہ ہونے والا پاک ایران ریلوے ٹریک بھی بحال نہیں ہوسکا ہے۔ خضدار میں گزشتہ شب ہونے والی بارش کے بعد توتک، باجوڑی، فیروز آباد کے علاقے متاثر ہوئے ہیں۔ سیلابی ریلے گھروں میں داخل ہونے سے کئی گھر منہدم ہوگئے۔ خضدار لیویز کے مطابق کوشک ندی میں طغیانی کی وجہ سے قریبی آبادی کا خطرہ ہے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے میں حالیہ سیلاب اور بارشوں سے تیرہ ہزار سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

خضدار رتو ڈیرو ایم ایٹ شاہراہ وانگو کے مقام پر بند ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شاہراہ کی بحالی میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ جبکہ خضدار تا کرخ شاہراہ کو جزوی طور پر بحال کردیا گیا ہے تاہم بڑی گاڑیوں کے لیے اب بھی یہ راستہ بند ہے۔
پی ڈی ایم اے کی جانب سے اتوار کی شام کو جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں بارشوں سے مزید نو افراد ہلاک ہوگئے جس کے بعد مرنے والوں کی تعداد 136 تک پہنچ گئی ہے جن میں 47 بچے اور33 خواتین بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تازہ اموات جھل مگسی، کوئٹہ، کچھی اور سوراب کے اضلاع سے رپورٹ ہوئی ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے میں حالیہ سیلاب اور بارشوں سے تیرہ ہزار سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔ چھ شاہراہوں کا 640 کلومیٹر حصہ اور16 پل بھی سیلابی ریلوں میں بہہ گئے ہیں۔ 23 ہزارمال مویشی ہلاک ہوئے۔ فصلوں اور باغات کو بھی بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔
پی ڈی ایم اے نے بلوچستان کے تمام اضلاع کی انتظامیہ کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ تین دن کے اندر اپنے اپنے اضلاع میں ہونیوالے جانی و مالی نقصانات کی رپورٹ اور درکار امداد سے متعلق تفصیلات جمع کرائیں۔

شیئر: