Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فِکسڈ ٹیکس تنازع: کیا وزیر خزانہ تاجروں کو راضی کر لیں گے؟

مریم نواز نے مفتاح اسماعیل کو معاملہ حل کرنے کی ہدایت کی ہے (فوٹو: مسلم لیگ ن)
پاکستان میں وفاقی حکومت کی جانب سے ریٹیلرز/ چھوٹے تاجروں پر لگائے گئے فکسڈ ٹیکس کے خلاف تاجر برادری سراپا احتجاج ہے۔ تاجروں کا موقف ہے کہ بجلی کے ایسے میٹرز پر بھی چھ ہزار روپے تک فکسڈ ٹیکس لگا دیا گیا ہے جن پر انتہائی کم یونٹ استعمال ہوتے ہیں۔
حکومت کی جانب سے 150 یونٹ ماہانہ تک بجلی استعمال کرنے والے تاجروں کو فکسڈ ٹیکس سے استثنٰی کے باوجود معاملات تاحال حل نہیں ہو سکے۔  
تاجروں کی جانب سے احتجاج کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اپنی ہی حکومت کے وزیر خزانہ سے فکسڈ ٹیکس کا معاملہ حل کرنے کا کہا تو مفتاح اسماعیل نے تاجر نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے معاملہ حل کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔  
مریم نواز ٹویٹ مفتاح اسماعیل کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ’مفتاح بھائی بجلی کے بِل پر ٹیکس واپس  لیں، تاجر بھائی پریشان ہیں اور شکوہ کر رہے ہیں۔ امید ہے آپ کوئی حل نکالیں گے۔‘  
اس کے بعد مریم نواز نے اگلے ٹویٹ میں کہا کہ ’مفتاح اسماعیل سے بات ہو گئی ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ وہ تاجر نمائندوں کے ساتھ بیٹھ کر اس کا حل نکالیں گے۔‘  
اسی طرح مفتاح اسماعیل نے اپنے ٹویٹ بیان میں کہا کہ ’وزیراعظم نے بھی مجھے کال کی ہے اور ہدایت کی ہے کہ تاجروں کے ساتھ بیٹھ کر ان کی بات سنی جائے اور ٹیکس قانون سے متعلق ان کا شکوہ دورہ کیا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ماہانہ 150 یونٹس سے کم بجلی استعمال کرنے والے تاجروں کو فکسڈ ٹیکس سے استثنٰی دے دیا جائے گا۔ ان چھوٹے تاجروں سے بھی صرف 3000 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس وصول کیا جائے گا جو ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ کسی تاجر کو ٹیکس نوٹس جاری نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی ایف بی آر نمائندے ان کی دکانوں پر جائیں گے۔‘  
مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ ’دکان دار اگر سالانہ 12 لاکھ روپے کما رہا ہے تو صرف 36 ہزار روپے کا ٹیکس ہی تو مانگ رہا ہوں۔‘ 

فکسڈ ٹیکس کیا ہے؟  

ایف بی آر کے مطابق فکسڈ ٹیکس رجیم کوئی نیا قانون نہیں بلکہ اسے 2014 میں متعارف کرایا گیا تھا جب بجلی کے تجارتی صارفین کو بجلی کے استعمال کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔  
فنانس بل 2022-23 کے تحت ایسے تاجر جن کا بجلی کا بل 30ہزار روپے ماہانہ تک ہو گا انہیں تین ہزار روپے ٹیکس دینا ہو گا۔ 30 ہزار سے 50 ہزار تک کے ماہانہ بل والے کو پانچ ہزار روپے اور 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے ماہانہ بل والے کو 10 ہزار روپے ماہانہ کا فکسڈ ٹیکس دینا ہو گا۔ تاہم بڑے ریٹیلرز اور سروسز فراہم کرنے والوں پر 50ہزار روپے ٹیکس نافذ کیا گیا ہے۔  
اگر کوئی ریٹیلر ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں اور اس کا نام ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں شامل نہیں ہے تو فکسڈ ٹیکس کی شرح دو گنا ہو جائے گی۔  

ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ’ماہانہ تین ہزار دینے والے تاجر کو سیل ٹیکس اور انکم ٹیکس رجسٹرڈ تصور کیا جائے گا۔ ان تاجروں کو سیل ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کروانا پڑے گا جبکہ سال کے آخر میں سادہ انکم ٹیکس فارم جمع کروانا ہو گا اور وہ فائلر تصور ہو گا۔ انہیں فائلر کی تمام سہولیات حاصل ہوں گی۔‘ 

تاجروں کے تحفظات  

جولائی کے بجلی کے بلوں میں فکسڈ ٹیکس کی رقم شامل ہونے ہونے کے تاجروں کی جانب سے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں تاجروں نے بجلی کے بل جمع نہ کرانے کا اعلان کرتے ہوئے ٹیکس واپس نہ لینے کی صورت میں شٹر ڈاون کی کال بھی دے رکھی ہے۔  
مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چوہدری نے بتایا کہ چئیرمین ایف بی آر کے ساتھ ملاقات میں اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔
ان کے مطابق ’ملک بھر کے گوداموں اور بجلی کے بند میٹرز حتی کہ ایک یونٹ بجلی استعمال نہ کرنے والے اور چند سو کے بلز پر بھی ماہانہ چھ ہزار سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے، جبکہ بجلی کے بلوں پر تاجر پہلے ہی انکم ٹیکس،سیلز ٹیکس اور دیگر ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ان ٹیکسز کے ساتھ یہ اضافی ٹیکس عائد کرنا سراسر ظلم ہے، لہذا فکس ٹیکس کو فی الفور ختم کیا جائے بصورت دیگر ملک بھر کے تاجر بجلی کے بل جمع نہیں کروائیں گے۔‘ 

تاجروں کا موقف ہے کہ ایسے میٹرز پر بھی چھ ہزار روپے تک فکسڈ ٹیکس لگا دیا گیا ہے جن پر انتہائی کم یونٹ استعمال ہوتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ ’بجلی کے بلوں پر لگائے گئے اس ٹیکس کے خاتمے اور معاملات کو بہتر طریقے سے لے کر چلانے کے لیے ایف بی آر اور وزارت خزانہ سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن معاملات طے ہونے اور عملی اقدامات تک ہمارا احتجاج اور بجلی کے بل جمع نہ کروانے کا فیصلہ قائم رہے گا۔‘  
آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر اجمل بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’فکسڈ ٹیکس بنیادی طور پر سیلز ٹیکس ہے جو کہ صرف امپورٹرز اور مینوفیکچرر کی سطح پر وصول ہوتا ہے تاجر پہلے ہی بجلی کی خریداری پر سیل ٹیکس ادا کر رہے ہیں انکم ٹیکس انکم پر ہوتا ہے حکومت بجلی کے بلوں پر بھی وصول کر رہی ہے۔‘  
ان کے مطابق ’اس سے مہنگائی پر براہ راست اثر اس لیے نہیں پڑے گا کہ اشیائے خوردونوش باقی چیزوں کی قیمتوں کا تعین اور سیلز ٹیکس سب کچھ ہو چکا ہوتا ہے لیکن ظاہر ہے جو ٹیکس دے گا اس کی کوشش تو ہوگی کہ وہ کمائی بھی کرے۔‘  

شیئر: