Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی سے نیب ترمیمی بل منظور، کون سی ترامیم کی گئیں؟

وفاقی وزیر قانون نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کی ‏قومی اسمبلی نے نیب دوسرا ترمیمی بل 2022 کثرت رائے سے منظور کر لیا ہے۔ نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا۔
بدھ کو قومی اسمبلی کی جانب سے منظور ہونے والے بل کے مطابق احتساب عدالت کے ججز کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے لیا گیا ہے۔ نیب ترمیم کے تحت ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی۔
نیب دوسرا ترمیمی بل 2022 وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔
بل کے تحت ملزم کا ٹرائل صرف اس کورٹ میں ہو گا جس کی حدود میں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔ نیب تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ریفرنس دائر کرے گا۔ پلی بارگین کے تحت رقم واپسی میں ناکامی کی صورت میں پلی بارگین کا معاہدہ ختم ہو جائے گا۔ 
نیب ترمیمی بل کے مطابق ریفرنس دائر کرنے سے قبل چیئر مین نیب پراسیکیوٹر جنرل کی مشاورت سے ایسی کاروائی منسوخ کر دے گا جو  بلا جواز ہو۔ ریفرنس دائر ہونے کے بعد اگر چیئرمین نیب کو لگے کہ ریفرنس بلا جواز ہے تو وہ متعلقہ عدالت سے اسے منسوخ یا واپس لینے کا کہہ سکتے ہیں۔
بل کے تحت نیب آرڈیننس کا اطلاق حکومت کی ایمنسٹی سکیم کے تحت  لین دین، ریاستی ملکیت کے اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز پر نہیں ہو گا۔ پچاس کروڑ روپے سے کم کا کیس نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آئے گا۔ صدر وفاقی حکومت کی سفارش پر پراسیکیوٹر جنرل مقرر کرے گا۔
بل میں وفاقی حکومت کو نیب عدالتوں کے قیام کا اختیار دے دیا گیا یے۔ نیب جرائم  کے ٹرائل کے حوالے سے وفاقی حکومت جتنی چاہے عدالتیں قائم کر سکتی ہے۔

نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا۔ ۔فوٹو: وکیپیڈیا

وفاقی حکومت، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے نیب عدالت کے جج کا تین سال کے لیے تقرر  کرے گی۔ نیب عدالت کا جج ایسا شخص تعینات نہیں ہو سکتا جو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج یا ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نہ ہو۔
نیب جج کو مدت مکمل ہونے سے قبل نہیں ہٹایا جا سکتا ہے نہ اس کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ نیب جج کو صرف متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت کے ساتھ ہٹایا جا سکتا ہے۔ ملزم کا ٹرائل صرف اس کورٹ میں ہو گا جس کی حدود میں جرم کا ارتکاب کیا گیا ہو۔
بل کے مطابق تحقیقات مکمل ہونے کے بعد نیب ریفرنس دائر  کرے گا، یہ حتمی ریفرنس ہو گا اور کوئی اضافی ریفرنس دائر نہیں کیا جائے گا۔
اضافی ریفرنس صرف اس صورت میں عدالت کی اجازت سے دائر ہو گا کہ اگر تحقیقات میں کوئی نئے حقائق سامنے آئیں۔ پلی بارگین یا رقم واپس کرنے والے ایک ملزم  کا اثر اس جیسے مقدمے میں دوسرے  ملزم پر نہیں پڑے گا۔ پلی بارگین کے تحت رقم واپسی کرنے پر ناکامی پر پلی بارگین کا معاہدہ ختم ہو جائے گا۔ اگر ملزم پلی بارگین  کے حکم کو چیلنج کرے یا عدالت کے علم میں آئے کہ پلی بارگین جبراً کروایا گیا ہے تو عدالت معاہدے کو ختم کر سکتی ہے۔ 
بل کےمطابق ریفرنس دائر کرنے سے قبل چیئرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل کی مشاورت سے ایسی کارروائی منسوخ کر دے گا جو  بلا جواز ہو۔ ریفرنس دائر کرنے کے بعد چیئرمین نیب  کو لگے کہ ریفرنس بلا جواز ہے تو وہ متعلقہ عدالت سے اسے منسوخ یا واپس لینے کا کہہ سکتا ہے۔
چارج فریم کرنے سے قبل ایسا ہونے کی صورت میں ملزم کو جرم سے ڈسچارج  کر دیا جائے گا جبکہ چارج فریم ہونے کے بعد ایسا ہونے پر ملزم کو جرم سے بری کر دیا جائے گا۔

شیئر: