Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں محفوظ پناہ گاہیں جنگلی حیات کو کیسے تحفظ فراہم کر رہی ہیں؟

مملکت کا تقریباً 30 فیصد علاقہ انواع و اقسام کے نباتات اور حیوانات کا گھر ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مسلسل اقتصادی ترقی، زرعی اور صنعتی شعبوں میں توسیع کے باعث جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہیں ان سے قدرتی ماحول کو نقصان پہنچا ہے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق گذشتہ صدیوں کے دوران انسان کا معیار زندگی بلند ہوا ہے لیکن کاربن کے اخراج، جنگلات کی کٹائی اور زمینی اور آبی مخلوق کو پہنچنے والے نقصان نے ماحولیاتی نظام پر بوجھ ڈال دیا ہے اور پودوں اور جانوروں کو نقصان پہنچایا ہے۔
ورلڈ وائلڈ فنڈ 2020 کی رپورٹ کے مطابق آنے والے برسوں میں تقریباً 10 لاکھ مختلف جانور کو معدومیت کے خطرے کا سامنا ہے۔
تاہم سعودی عرب کی کوششوں سے معلوم ہو رہا ہے کہ صورتحال ایک جیسی نہیں۔ حجاز کے چٹیل پہاڑوں اور مشرق کے سرسبز و شاداب نخلستانوں سے لے کر وسیع وادیاں اور وسیع صحرائی میدان انواع و اقسام کے نباتات اور حیوانات کا گھر ہے۔ مملکت کا یہ علاقہ 30 فیصد اراضی پر مشتمل ہے۔
حیاتیاتی تنوع کی دولت کو محفوظ رکھنے کے لیے مملکت کے حکام نے کافی وسائل مختص کیے ہیں۔ اس میں معدومیت کے خطرے سے دوچار جانوروں اور ان کے قدرتی مسکن کو محفوظ رکھنے کے منصوبوں کے لیے فنڈز شامل ہیں۔
سعودی عرب کی کوششیں 1978 سے جاری ہیں جب سعودی حکام نے جانوروں کے قدرتی مسکن کے تحفظ کے لیے 82 ہزار 700 کلومیٹر کا علاقہ مختص کیا۔

حیاتیاتی تنوع کی دولت کو محفوظ رکھنے کے لیے مملکت کے حکام نے کافی وسائل مختص کیے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

1986 میں مملکت نے نیشنل کمیشن فار وائلڈ لائف کنزرویشن اور ڈیویلپمنٹ قائم کیا۔
انواع و اقسام کے نباتات اور حیوانات کے تحفظ کے پہلے اقدام کے طور پر تلور کی افزائش کے لیے کام کیا گیا۔ تلور کی تعداد زیادہ شکار اور زمین میں تبدیلیوں کی وجہ سے کم ہو گئی تھی۔
تلور کی آبادی بڑھانے کے لیے مملکت نے کئی طویل المدت منصوبے شروع کیے تھے۔
شہزادہ الفیصل سینٹر نے 1989 میں تلور کی افزائش نسل کے لیے کام شروع کیا تھا۔ منصوبے کے پہلے دو سالوں میں دو ہزار سے زیادہ تلور کو قدرتی مسکن میں چھوڑ دیا گیا تھا۔
اسی طرح امام ترکی بن عبداللہ رائل نیچر ریزیرو ڈیویلپمنٹ کی جانب سے تلوr کی افزائش نسل کی کوششیں جاری ہیں۔
ماحولیاتی تحفظ اور بحالی کی کوششوں کے طور پر سعودی عرب نے  بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کے لیے ماحولیات کے ماہرین، سائنسدانوں اور خصوصی ٹاسک فورسز کو متحرک کیا ہے۔
خطرے سے دوچار جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے پناہ گاہیں اور مسکن بنائے ہیں۔

تلور کی آبادی بڑھانے کے لیے مملکت نے کئی طویل المدت منصوبے شروع کیے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نیشنل کمیشن فار وائلڈ لائف کنزرویشن اینڈ ڈیویپلمنٹ کے پاس 15 محفوظ پناہ گاہوں کا انتظام ہے۔ اسی طرح مزید 20 پناہ گاہوں کو محفوظ رکھنے کے لیے تجاویز بھی زیر غور ہیں۔
طائف میں پرنس سعود الفیصل سینٹر فار وائلڈ لائف ریسرچ، القاسم میں ریم غزالی ہرنوں کی افزائش کے پرنس محمد السدیری سینٹر اور العلا میں عریبین لیپرڈ شاران نیچر ریزور مملکت میں موجود وہ محفوظ پناہ گاہیں ہیں جہاں خطرے سے دوچار جانوروں کی افزائش پر توجہ دی جاتی ہے۔
ایک لاکھ 30 ہزار 700 مربع کلومیٹر پر مشتمل کنگ سلمان بن عبدالعزیز رائل نیچر ریزور معدومیت کے خطرے سے دوچار پرندوں، ممالیہ اور رینگنے والے جانوروں سمیت دیگر جانوروں کی سب سے بڑی محفوظ پناہ گاہ ہے۔
اس کے تین اہم محفوظ پناہ گاہیں خنفہ، طبیق اور حرات الحرہ ریم غزال ہرنوں، بھیڑیوں، عریبیئن اوریکس، لومڑی، آئی بیکس، چپکلی اور مختلف نقل مکانی کرنے والے پرندوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

ایک لاکھ 30 ہزار 700 مربع کلومیٹر پر مشتمل کنگ سلمان بن عبدالعزیز رائل نیچر ریزور جانوروں کی سب سے بڑی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کنگ سلمان بن عبدالعزیز رائل نیچر ریزور کے ترجمان نے عرب نیوز کو بتایا کہ ان کے سینٹر نے جانوروں کے تحفظ کے مختلف اقدامات کیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس میں قدرتی پناہ گاہوں کی بحالی، نگرانی، تحفظ اور آگاہی کے پروگرام شامل ہیں۔
دنیا بھر میں سمندری حیات کو بھی معدومیت کے خطرے کا سامنا ہے تاہم مملکت کا جزائر فراسان کو اپنی منفرد حیاتیاتی تنوع کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے۔
یہ 230 سے زیادہ مچھلیوں، مرجان کی چٹانوں اور دیگر معدومیت کے خطرے سے دوچار سمندی حیات کے مختلف اقسام کا مسکن ہے۔

شیئر: