Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جنوبی پنجاب میں عمران خان کے خلاف نیا سیاسی اتحاد؟

جہانگیر ترین اور پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کے درمیان دیرینہ رنجش کے بعد صلح کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پاکستان کے سیاسی حالات میں ہر روز کوئی نئی تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے اور تمام سیاسی قوتیں نئی صف بندیاں کر رہی ہیں۔
ایک طرف چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان ’آخری معرکے‘ کی تیاری کر رہے ہیں تو دوسری طرف ن لیگ اور اتحادی اس سے نمٹنے کے لیے تمام پتے سنبھال کے بیٹھے ہیں۔
ایسے میں جنوبی پنجاب کی سیاست میں بھی ہلچل ہوئی ہے۔ جہانگیر ترین اور پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم احمد محمود کے درمیان دیرینہ رنجش کے بعد صلح کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
سیاسی پنڈت اس صلح کو جنوبی پنجاب کی سیاست میں ایک اہم سنگ میل سے تشبیہ دے رہے ہیں۔
جنوبی پنجاب پیپلز پارٹی کے چیف کوآرڈینیٹر عبد القادر شاہین کے مطابق ’مخدوم احمد محمود اور جہانگیر خان ترین کے درمیان رنجشوں کا دور ہونا ایک خوش آئند بات ہے۔ سیاسی حوالے سے آنے والے دنوں میں کئی سرپرائز آنے والے ہیں۔ عمران خان نے جو ملکی معیشت کا حال کیا ہے اس میں تمام جمہوری طاقتوں کا اکٹھا ہونا بہت ضروری ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ملک کو دیوالیہ ہونے کے قریب لا کھڑا کیا گیا ہے۔ جنوبی پنجاب نے ہمیشہ ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آئندہ بھی کرتا رہے گا۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی ہر حوالے سے اپنا کردار ادا کرے گی۔‘

محمد مالک کے مطابق ’اگر پنجاب میں جیسا کہ خان صاحب نے کہا ہے کہ حکومت گرانے کی کوشش ہو رہی ہے تو اس اتحاد کا اثر اس پر بھی ہو سکتا ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)

خیال رہے کہ مخدوم احمد محمود پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گورنر پنجاب بھی رہ چکے ہیں۔ وہ جہانگیر ترین کے قریبی رشتے دار بھی ہیں۔ جہانگیر ترین خان ماضی میں جنوبی پنجاب میں پی ٹی آئی کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے اور انہوں نے حکومت بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔
سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ’یہ نیا اتحاد مستقبل کی سیاست پر اثر مرتب کرے گا تاہم میں نہیں سمجھتا کہ جہانگیر ترین پیپلز پارٹی جوائن کریں گے، بلکہ یہ اتحاد سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے ہے۔ دونوں مل کر جنوبی پنجاب میں عمران خان راستہ روکیں گے۔‘
’آپ یوں سمجھ لیں کہ ایک ایک ہوتا ہے اور دو 11 ہوتے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں مخدوم احمد محمود ایک مضبوط سیاسی شخصیت ہیں۔ اگر پنجاب میں کہیں پیپلز پارٹی ابھی اپنی طاقت میں موجود ہے تو وہ جنوبی پنجاب ہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’صرف یہی نہیں کہ اس علاقے میں پارٹی کی سیاست اہم ہے، بلکہ اگر آپ غور کریں تو یہاں سے آزاد امیدواروں کی تعداد گزشتہ انتخابات میں زیادہ تھی، جنہوں نے حکومت بنانے کے لیے صورت حال کو فیصلہ کن بنا دیا تھا۔ ان آزاد اراکین پر جہانگیر ترین اور مخدوم احمد محمود کا اپنا اپنا اثرو رسوخ ہے۔ یہ اتحاد اسی تناظر میں ہوا ہے۔‘
کچھ سیاسی مبصرین کے مطابق اس ’نئے سیاسی اتحاد‘ کی زیادہ ضرورت جہانگیر ترین کو ہے، جو جنوبی پنجاب میں اپنی سیاسی گرفت دوبارہ مضبوط کرنے کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا نقصان تحریک انصاف اور ن لیگ دونوں کو ہو سکتا ہے۔
سینیئر صحافی اور ٹی وی اینکر محمد مالک نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی اس اتحاد کا شاید اتنا اثر نہیں ہو گا لیکن ہو سکتا ہے مستقبل میں یا اگلے انتخابات میں کوئی رول نکل آئے۔

کچھ سیاسی مبصرین کے مطابق اس ’نئے سیاسی اتحاد‘ کی زیادہ ضرورت جہانگیر ترین کو ہے۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

انہوں نے کہا کہ ’اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی سیاست کا مرکز و محور وفاقی حکومت ہے، اور چیزیں بہت تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ ابھی تو خان صاحب کا اسلام آباد کی طرف مارچ کرنا اور اس سے بھی زیادہ آرمی چیف کی تعیناتی، یہ دو بڑے مسئلے ہیں جن سے سیاسی منظر نامہ بدل سکتا ہے۔‘
محمد مالک کا کہنا تھا کہ ’جہانگیر ترین 17 جولائی کے ضمنی انتخابات میں کمزور ہوئے ہیں ان کے زیر اثر سیاسی حلقوں میں بھی انہیں مات ہوئی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک اچھی سیاسی چال ہے۔ جس سے وہ ایک مرتبہ دوبارہ رنگ میں آ گئے ہیں۔‘
’اگر پنجاب میں جیسا کہ خان صاحب نے کہا ہے کہ حکومت گرانے کی کوشش ہو رہی ہے تو اس اتحاد کا اثر اس پر بھی ہو سکتا ہے۔‘

شیئر: