Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں سول ایوارڈز دینے کا قانون کیا ہے اور یہ کن افراد کو ملتے ہیں؟

پاکستان کے یومِ آزادی پر وفاقی وزرا اور صحافیوں کو دیے گئے سول ایوارڈز اس وقت سوشل میڈیا پر ایک بار پھر تنقید کی زد میں ہیں۔
جہاں کچھ لوگ حکومت پر تنقید کر رہے ہیں کہ یہ ایوارڈز سیاسی بنیادوں پر دیے گئے ہیں وہی کچھ افراد اس کی ستائش بھی کر رہے ہیں۔ تاہم اس برس کے اعزازات میں انڈیا کے ساتھ لڑائی میں آپریشن ’بنیان مرصوص‘ اور ’معرکہ حق‘ میں نمایاں خدمات دینے والوں کو اعلٰی سول اعزازات کا حق دار سمجھا گیا ہے۔

سول ایوارڈز کا قانون

پاکستان میں سول اعزازات کا قانونی ڈھانچہ آئینِ پاکستان 1973 کے آرٹیکل 259 میں درج ہے، جو صدرِ مملکت کو وفاقی حکومت کی سفارش پر شہریوں اور غیرشہریوں کو نمایاں خدمات کے اعتراف میں اعزاز دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس قانون کے نفاذ اور شفافیت کی ذمہ داری ’ڈیکوریشنز ایکٹ 1975‘ پر عائد ہوتی ہے، جو اعزازات کے قیام، ان کی منسوخی یا عطا کرنے کے طریقہ کار کو طے کرتا ہے اور صدر کی منظوری کے بغیر کسی شخص کو یہ اعزاز پہننے یا استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
یہ اعزاز دینے کا عمل کئی مراحل سے گزرتا ہے۔ ہر برس دسمبر میں وزارتیں اور صوبائی محکمے نمایاں خدمات انجام دینے والے افراد کے نام کابینہ ڈویژن کو بھیجتے ہیں۔ اس کے بعد تین مرحلوں پر مشتمل کمیٹیاں ان ناموں کی جانچ کرتی ہیں، شواہد اور خدمات کا جائزہ لیتی ہیں اور حتمی فہرست تیار کرتی ہیں۔ یہ فہرست صدرِ مملکت کو بھیجی جاتی ہے، جو 14 اگست کو اعلان کرتے ہیں اور 23 مارچ کو یومِ پاکستان کے موقع پر باضابطہ تقریب میں یہ اعزازات عطا کیے جاتے ہیں۔

وزرا کے لیے سول اعزازات

اس برس یومِ آزادی کے موقع پر وفاقی کابینہ کے کئی وزرا، سرکاری افسران اور ان کے ماتحت محکموں کے اہلکاروں کو سول اعزازات دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس فہرست کی مکمل تفصیل کابینہ ڈویژن یا پریس انفارمیشن ڈپارٹمنٹ کے سرکاری اعلامیے سے سامنے آئے گی، لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ حکومتی عہدیدار اس فہرست میں شامل ہوئے ہوں۔
ماضی میں بھی وزرا کو سول اعزازات دیے جانے کی مثالیں موجود ہیں۔ سنہ 2011 میں صدر آصف علی زرداری کے دور میں وفاقی کابینہ کے کئی ارکان کو اعزازات سے نوازا گیا، جس پر بعض حلقوں نے سیاسی بنیادوں پر انتخاب کا الزام لگایا۔
سنہ 2025 میں سب سے بڑا سول اعزاز ’نشانِ پاکستان سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دیا گیا، جبکہ ’ستارۂ امتیاز‘ اور دیگر اعزازات بھی ممتاز شخصیات کے حصے میں آئے۔
ان سول ایوارڈز کی تقسیم کے حوالے سے سیاسی تجزیہ کار رضا رومی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سول اعزازات کا بنیادی مقصد ملک و قوم کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو سراہنا ہے، مگر یہ مقصد اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جب اس عمل میں شفافیت اور میرٹ کو اولین حیثیت دی جائے۔ ماضی میں سیاسی وابستگی یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر اعزاز دینے کے الزامات اس نظام کی ساکھ کو متاثر کرتے رہے ہیں۔‘
تجزیہ نگار وجاہت مسعود سمجھتے ہیں کہ جب حکومتی وزرا اور اعلٰی افسران کو اعزازات دیے جاتے ہیں تو اس عمل کی غیرجانبداری پر سوال اٹھتا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ روایتی عمل ایک طرح کی ’سیاسی مہربانی‘ میں بدل چکا ہے۔ اصل مقصد خدمات کا اعتراف ہونا چاہیے، مگر بعض اوقات یہ عمل سیاسی انعام میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اگر یہی اعزازات صحیح معنوں میں مستحق افراد کو دیے جائیں تو یہ معاشرے میں مثبت رجحانات پیدا کرتے ہیں، مگر جب یہ سیاسی تعلقات کے بدلے ملیں تو ان کی عزت مجروح ہوتی ہے۔‘
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ آئین اور 1975 کا قانون واضح بنیاد فراہم کرتا ہے، مگر اصل مسئلہ عمل درآمد اور غیر جانبداری کا ہے۔ اگر سفارشات کی جانچ سخت اور شفاف ہو تو یہ اعزازات قومی سطح پر فخر کا باعث بن سکتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ صرف ایک رسمی کارروائی رہ جائے گی جو ہر برس یومِ آزادی پر دہرائی جاتی ہے۔

 

شیئر: