Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت گرانے کے لیے ’سٹریٹ پاور کے ساتھ سٹیٹ پاور‘ ضروری ہے؟

حکومت کے خاتمے کے بعد عمران خان مختلف شہروں میں جلسے کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے حکومت کے خلاف حقیقی آزادی کی تحریک کا اعلان کر رکھا ہے جس کا مقصد حکومت سے نجات حاصل کر کے جلد نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔
اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو عموماً حکومتوں کے خلاف صرف وہی احتجاجی تحریکیں کامیاب ہوئی ہیں جن کو اسٹیبلشمنٹ کی کسی نہ کسی طرح پشت پناہی حاصل تھی یا پھر جن کا نتیجہ مارشل لا کی شکل میں سامنے آیا۔
تاہم سابق وزیراعظم کے حالیہ بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کی بھی مخالفت کر رہے ہیں اور موجودہ سیاسی حکومت کی بھی اس لیے ان کی تحریک کو اس طرح کی پشت پناہی بظاہر حاصل نہیں۔ تو کیا وہ نئی تاریخ رقم دہرانے میں کامیاب ہوں گے یا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی؟

’سٹریٹ پاور کے ساتھ سٹیٹ پاور ضروری ہے‘

اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئیر صحافی اور تجزیہ کار مجبیب الرحمن شامی کا کہنا تھا کہ تاریخ میں تو کبھی کوئی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف چلنے والی تحریک سے نہیں گری۔
جب کبھی حکومت اور اپوزیشن میں جمود آ جائے اور کوئی آئینی حل نہ نکل سکے تو پھر فوج کی مداخلت ہی سامنے آئی ہے۔‘ 
انہوں نے تاریخی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1969 میں جب اس وقت کے صدر ایوب خان کی حکمرانی کا خاتمہ ہوا تو بھی فوج کی مداخلت سے ہی جنرل یحیٰ خان برسراقتدار آئے تھے۔
مجبیب الرحمان شامی کے مطابق جب 1977 میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان نیشنل الائنس (پی این اے ) کی تحریک کامیاب ہوئی تو بھی اس کے نتیجے میں مارشل لا لگ گیا تھا اور جنرل ضیا الحق نے اقتدار سنبھال لیا تھا۔

1999 میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے ذریعے نواز شریف حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اسی طرح نوے کی دہائی میں نواز شریف اور بے نظیر کی حکومتیں 58 ٹو بی کے تحت برطرف کی گئیں مگر جب یہ ختم ہو گئی تو 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے ذریعے نواز شریف حکومت کا خاتمہ کیا گیا۔
سینیئر صحافی کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کو بھی سپریم کورٹ کے سو موٹو کے ذریعے برطرف کیا گیا تھا وہ بھی ایک لحاظ سے ماورائے آئین اقدام تھا کیونکہ اس فیصلے سے نئی نظیر قائم ہوئی۔
عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک کی کامیابی کے امکان کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اپریل  میں عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کی گئی تھی اور اگر وہ پارلیمنٹ میں موجود رہتے تو شاید تحریک عدم اعتماد سے ہی موجودہ حکومت کو ختم کر سکتے تھے ۔
’تاہم ان کی تحریک کی کامیابی کے امکانات اس لیے کم ہیں کہ جب تک سٹریٹ پاور میں سٹیٹ پاور شامل نہ ہو جائے تو حکومت نہیں گرتی۔‘

’ڈکٹیٹرز کے خلاف جمہوری تحریکیں کامیاب ہوئیں

سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کے مطابق پاکستان میں ایسا کہنا درست نہیں کہ جمہوری جدوجہد کامیاب نہیں ہوتی کیونکہ دنیا میں اور کون سا ایسا ملک ہوگا جہاں چار مارشل لا لگے اور چاروں بار جمہوریت بحال ہوئی۔
’1947 سے اب تک کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب اسٹیبلشمنٹ حکومت میں ہوتی ہے تو پھر جمہوری جدوجہد کامیاب ہوتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کبھی شام نہیں بنا کبھی لبنان نہیں بنا۔ اس لیے ہمیں اس مثبت پہلو کو بھی دیکھنا چاہیے۔‘

نوے کی دہائی میں نواز شریف اور بے نظیر کی حکومتیں 58 ٹو بی کے تحت برطرف کی گئیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سینیئر تجزیہ کار کے مطابق جمہوری حکومتوں کے خلاف زیادہ تر اتحاد انجینیئرڈ ہوتے ہیں یا ان میں انجینیئرنگ کا کوئی پہلو ہوتا ہے۔ ماضی میں جمہوری حکومتوں کو غیر جمہوری طریقے سے نکالنے کا نتیجہ مارشل لا کی شکل میں نکلا جیسا کہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک میں دیکھا۔
ضیغم خان کا کہنا تھا کہ پی این اے کے رہنما ایئر مارشل اصغر خان نے اس وقت کے فوجی سربراہ کو خط لکھ کر مداخلت کی دعوت دی تھی گویا وہ ایک غیر جمہوری کوشش تھی جس کا نتیجہ مارشل لا کی شکل میں نکلا۔
عمران خان کی تحریک کی کامیابی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو جمہوری طریقے سے نکالنے کے لیے قومی سطح پر لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہوتی ہے اور شہر شہر حکومت کا نظام جام کرنا ہوتا ہے تاہم پاکستان کے عوام کا مزاج انارکی کا نہیں ہے یہاں لوگ ووٹ کے ذریعے حکومت کو باہر کرنا پسند کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے جلسوں میں بڑی تعداد میں لوگ ہوتے ہیں تاہم کئی دفعہ کال دینے کے باوجود ملک بھر میں ’اپ رائزنگ‘ نہیں ہوئی۔

شیئر: