Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوری اور ’کارے کارے نینا‘، ذکر کچھ سیاہ سفید کا

سنسکرت میں سفید کے لیے ایک لفظ ’سیتا / सित‘ آیا ہے۔ فوٹو: پکسابے
رنگت اسے پسند ہے اے نسترن سفید 
پہنے نہ کیوں وہ رشک چمن پیرہن سفید 
شعر سید آغا علی مہر کا اور پیراہن ان کے محبوب کا ہے جو شعر ہی سے واضح ہے کہ ’سفید‘ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سفید لباس بزرگی و وقار کی علامت ہے۔  
’سفید‘ کی اصل فارسی کا ’سپید‘ ہے، جب کہ یہ ’سپید‘ لفظ ’اسپید‘ کی تخفیفی صورت ہے۔ 
لغت نامہ دہخدا کے مطابق ’سپید‘ کا لفظ ہندی باستان (قدیم ہندی) یعنی سنسکرت میں بصورتِ ’سوِت‘ موجود ہے۔ بات یہ ہے کہ سنسکرت میں ایک ’سفید‘ کے لیے درجنوں لفظ آئے ہیں، جو ظاہر ہے کہ کہیں اسم اور کہیں صفت ہیں۔ چنانچہ سنسکرت میں سفید کے لیے ایک لفظ ’سیتا / सित‘ آیا ہے، غور کریں تو یہ اوستا زبان کے ’سپئتا‘ کے قریب ہے۔  
سنسکرت ہی میں سفید کی ایک صورت ’شیٹا / शित‘ ہے۔  قیاس کہتا ہے کہ یہی ’شیٹا‘ اردو اور پنجابی میں ’چِٹا‘ ہے۔ اسے اردو میں ’گورا چٹا اور ’چٹا اَن پڑھ‘ کے الفاظ میں دیکھا جاسکتا ہے، جب کہ پنجابی کا مشہور ٹپّہ ’چٹا کُکڑ بنیرے تے‘، سفید مرغے کے منڈیرے پر چڑھ جانے کا افسانہ سنا رہا ہے۔ 
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ لفظ ’گورا‘ بھی سنسکرت سے متعلق ہے اور سفید کے معنی میں رائج ہے، یہی وجہ ہے کہ سفید چمڑی والی یورپی باشندے ہندوستان میں ’گورا صاحب‘ اور گورے کہلائے۔

’قراقرم‘ کے معنی ’سیاہ ریت‘ یا ’سیاہ کنکر‘ کے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

جبکہ شعر و شاعری میں گوری رنگت کے نسبت سے خود محبوبہ کو ’گوری‘ کہنا تو سامنے کی بات ہے۔ دیکھیں ’ناصر شہزاد‘ کیا کہہ رہے ہیں: 
کہہ دے من کی بات تو گوری کاہے کو شرماتی ہے 
شام ڈھلے تجھ کو کس اپرادھی کی یاد ستاتی ہے 
سچ یہ ہے کہ ’سفید‘ کا تذکرہ خاصا طُولانی ہے، سو اب سفید کے بعد کچھ ذکر سیاہ کا ہو جائے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں ’رنگوں‘ کی رعایت سے دنیا کے کئی عظیم پہاڑ، سمندر، ملک اور شہروں کے نام وابستہ ہیں۔ 
سطح مرتفع پامیر سے پھوٹنے والے پہاڑوں کے عظیم سلسلوں میں سے ایک ’قراقرم‘ بھی ہے۔ جس کے معنی ’سیاہ ریت‘ یا ’سیاہ کنکر‘ کے ہیں۔ غالباً پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ ’قراقرم‘ کا جُز اول ’قرا/قرہ‘ ہمارے یہاں بصورت ’کارا‘ بولا جاتا ہے۔ جب کہ یہ ’کارا‘ دراصل ’کالا‘ کے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔
بہرحال ’کارا‘ کا لفظ سندھی اور پوربی زبان کے علاوہ ہندوستان کی کئی بولیوں میں موجود ہے۔ 
یقین نہ آئے تو مشہور گانا سماعت فرمائیں جس کے بول ہیں: 
کجرا رے کجرا رے، تیرے کارے کارے نینا 
اب سوال یہ ہے کہ ’ماؤنٹی نیگرو‘ تو سرسبز و شاداب جنگلات سے پَٹا ہوا ہے، تو اس کوۂ سبز کو کوۂ سیاہ کس حساب میں کہا جاتا ہے۔  

 ’کارا‘ کا لفظ ’کالا‘ کے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔ فوٹو: پکسابے

عرض ہے کہ سبز کی کثرت کو سیاہ رنگت سے تعبیر کرنا دنیا کے کی کئی زبانوں میں مشترک ہے، اس حوالے سے عربی کا ذکر کیا جاچکا ہے، جس میں ایسا مقام جہاں درختوں کی کثرت ہو’سواد‘ کہا جاتا ہے، اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ’سواد‘ لفظ ’اسود‘ سے مشتق ہے اور اسود کے معنی ’سیاہ‘ کے ہیں۔ 
اب اگر سمندر کی بات کریں تو ’بحیرہ اسود‘ یا Black Sea کا نام ذہن میں آتا ہے۔ مغربی یورپ اور اناطولیہ میں گِھرے اس سمندر کو ایک تنگ آبنائے بحیرہ باسفورس سے ملاتی ہے۔  
جہاں تک اس سمندر کو ’سیاہ‘ کہنے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے کئی آراء میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے یہ نام اس کے بے جان ہونے اور گہری رنگت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ 
اب سیاہ سمندر کی رعایت سے ’امیر قزلباش‘ کا شعر ملاحظہ کریں: 
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا 
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا 

شیئر: