Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اک تو ہی دَھنوان ہے گوری باقی سب کنگال

چاندی کی طرح سفید یا چاندی سے بنی چیز کو ’روپہلا اور روپہلی‘ کہتے ہیں (فوٹو: فری پک)
روپ کی دھوپ کہاں جاتی ہے معلوم نہیں
شام کس طرح اتر آتی ہے رخساروں پر
عرفان صدیقی کا یہ شعر نہیں شکوہ ہے وقت کے بدلنے اور جوانی دیوانی کے ڈھلنے کا۔ مرثیہ ہے اُن لب و رخسار کا جو کبھی بہار آشنا تھے مگر اب خزاں رسیدہ ہیں۔ گردشِ ایام کے ستائے شاید ایسے ہی کسی چہرے کو دیکھ کر شاعر چیخ اٹھا ہے ’اب تو پہچانے نہیں جاتے ہیں پہچانے ہوئے‘۔
اب بات ہوجائے اُس ’روپ‘ کی جس کی دھوپ نے ایک عالم کی نگاہوں کو خیرہ کر رکھا ہے۔ لفظ ’روپ‘ کی اصل سنسکرت کا ’روپا/रूप‘ ہے، جب کہ ’روپ‘ اس کا اردو و ہندی تلفظ ہے۔
سنسکرت میں ’روپ / روپا‘ کے دسیوں معنی میں سے ایک ’حُسن‘ بھی ہے، یوں یہ ’روپ‘ جس پر آئے وہ ’روپیکا‘ کہلاتا ہے، یوں ’روپ‘ اگر ’حُسن‘ ہے تو ’روپیکا‘ کے معنی ’حسین‘ کے ہیں۔

 

یہ روپ جب ’حُسنِ بے مثال‘ ہوجاتا ہے، تب ’روپ اَنُوپ‘ کہلاتا ہے۔ دیکھیں ’فاروق انجینئر‘ کیا کہہ رہے ہیں:
آنکھوں کو یوں بھا گیا اُس کا روپ اَنُوپ
سردی میں اچھی لگے جیسے کچی دھوپ
اسی ’روپ‘ سے ’کام روپ‘ بھی ہے، جس کے معنی ’حسین و جمیل‘ کے ہیں۔ آپ ’روپ‘ کو اردو میں رائج بہت سی تراکیب میں دیکھ سکتے ہیں مثلاً حُلیہ اور شکل و صورت کو ’رُوپ سَرُوپ‘ کہا جاتا ہے، ایسے ہی ایک ترکیب ’بہروپ‘ ہے، اور اس کے معنی ’بہت سے روپ‘ کے ہیں۔ پھر اسی ’بہروپ‘ سے لفظ ’بہروپیا‘ ہے جو بھیس بدل بدل کر آنے اور دھوکا دے جانے والے کو کہتے ہیں۔ یقین نہ آئے توعابد ادیب‘ کا شعر ملاحظہ کریں:
بہروپیا ہے کوئی، پِھرے ہے نگر نگر
قاتل کا روپ دھارے، کبھی چارہ ساز کا
یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ خاص ہندوستان کے تناظر میں خوبصورتی کا بنیادی تصور ’گوری رنگت‘ سے جُڑا ہے۔ جب کہ اس تصور کی جڑیں نسلی برتری میں پیوست ہیں۔ وسط ایشیاء سے ہند کے زرخیز میدانوں کا رُخ کرنے والے خوش شکل و خوبرو آریاؤں نے اپنی نسلی برتری اور مذہبی سیادت قائم کرنے کے لیے جو طبقاتی نظام متعارف کروایا اُسے ’ورن / वर्णکا نام دیا۔

سنسکرت میں چاندی کو ’روپیا /रौप्य‘ کہتے ہیں۔ چاندی کو یہ نام اُس کی سفیدی کے سبب ملا (فوٹو: ڈیجیٹل ایف سی)

سنسکرت میں ’ورن‘ کے ایک معنی سماجی طبقہ، دوسرے معنی ذات اور تیسرے معنی ’رنگ‘ کے ہیں۔ اب ’رنگ‘ کے ساتھ لفظ ’ہندو‘ پرغور کریں کہ فارسی میں ’ہندو‘ کے معنی ’کالا / سیاہ‘ کے ہیں، یہی وجہ ہے کہ فارسی کے سب سے بڑے غزل گو شاعر حافظ شیرازی نے محبوب کے ’سیاہ تِل‘ کو ’خالِ ہندوش‘ کے الفاظ سے یاد کیا ہے۔ 
سنسکرت میں چاندی کو ’روپیا /रौप्य‘ کہتے ہیں۔ چاندی کو یہ نام اُس کی سفیدی کے سبب ملا ہے۔ جب کہ چاندی کی طرح سفید یا چاندی سے بنی چیز کو ’روپہلا اور روپہلی‘ کہتے ہیں۔
یہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’روپیا‘ تو پاکستان اور ہندوستان کی کرنسی کا نام ہے۔ توعرض ہے کہ سو ڈیڑھ سو سال پہلے تک ہندوستان میں چاندی کے سکّے رائج تھے، جو اپنی اصل کی نسبت سے ’روپیا‘ کہلاتے تھے۔ تاہم بعد میں جب سونے چاندی کے سکّوں کا چلن باقی نہ رہا تو بھی رائج ہونے والی کاغذی نوٹوں اور دھاتی سکّوں کو ’روپیا‘ ہی کہا گیا۔
اب اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں ’چاندی‘ کی رعایت سے قتیل شفائی کا مشہور شعر ملاحظہ کریں:
 چاندی جیسا رنگ ہے تیرا سونے جیسے بال
اک تو ہی دھنوان ہے گوری باقی سب کنگال
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ شعر بالا میں وارد لفظ ’دَھنوان‘ کا جُزاول ’دَھن‘ وہی ہے جسے ہم ’دَھن دولت‘ اور ’تن، من، دَھن‘ کی سی تراکیب میں برتے ہیں، جب کہ جُز ثانی ’وان‘ کو ’والا اور صاحب‘ کے معنی میں ’کوچوان‘ اور ’بھگوان‘ کی کسی تراکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔ اس ’وان‘ کی دوسری صورت ’بان‘ ہے، جس کا نظارہ ’باغبان‘ و ’مہربان‘ میں کیا جاسکتا ہے۔ 

سنسکرت میں چاندی کا ایک اور صفاتی نام ’ارجُن / अर्जुन‘ ہے (فوٹو: فری پک)

خیر ذکر تھا ’چاندی‘ کا، جسے عربی میں ’فِضۃ‘ و ’نُقرہ‘ اور فارسی میں ’سَیم‘ کہتے ہیں، اسے ’سَیم و زر‘ کی ترکیب سے سمجھ سکتے ہیں۔ سنسکرت میں چاندی کا ایک اور صفاتی نام ’ارجُن / अर्जुन‘ ہے۔  دراصل ’ارجُن‘ کے معنی روشن اور سفید کے ہیں، چونکہ چاندی اُجلی اور سفید ہوتی ہے یوں اس نسبت سے ’ارجُن‘ کہلاتی ہے ۔ 
اب اس ’ارجن‘ کے ساتھ جنوبی امریکی ملک ارجنٹائن (Argentina) کے نام پر غور کریں تو ان دونوں لفظوں میں صوتی مماثلت کے ساتھ معنوی اشتراک بھی نظر آجائے گا۔ 
واقعہ یہ ہے کہ یورپ میں نشاۃِ ثانیہ کے آغاز کے ساتھ ہی نئی دنیا کو کھوجنے اور اَن دیکھی سرزمین تک پہنچنے کا جنون پیدا ہوا۔ یہ مہم جوئی کا شوق تھا جو ’واسکوڈے گاما‘ کو ’راس امید‘ سے پرے ہندوستان لایا اور جس نے ’کولمبس‘ کو امریکا تک پہنچایا۔ اُس عہد میں جس طرح ہندوستان کی دولت کا چرچا تھا ایسے ہی جنوبی امریکا میں ’چاندی کے پہاڑوں کا افسانہ‘ بھی مشہور تھا۔ لہٰذا چاندی کے پہاڑوں تک پہنچنے کے لیے یورپی اقوام مہم جُو گروہ در گروہ جس خطے کا ’رُخ‘ کر رہے تھے ہسپانیوں نے اُسے ’ارجنٹینا / Argentina‘ کا نام دیا۔ جس کے معنی ’چاندی کا (بنا ہوا)‘ ہیں۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہسپانویوں نے ’ارجنٹینا‘ کا لفظ اطالوی زبان سے لیا اور اطالوی میں یہ لفظ لاطینی زبان سے آیا ہے۔ لفظ ’ارجنٹینا‘ کی اصل لاطینی کا ’ارجنٹم (argentum)‘ ہے۔
’ارجنٹم‘ کا لفظ ’چاندی، نقدی، نوٹ، سکّوں اور دولت‘ کے معنی میں تلفظ کے اختلاف کے ساتھ یورپ کی بہت سی زبانوں میں رائج ہے۔ مثلاً یہ فرانسیسی میں ارژن (argent) اور رومانین میں ارجِنٹ (argint) ہے۔
سنسکرت کے ’ارجُن‘ سے لاطینی کے ’ارجنٹم‘ تک لفظ و معنی کا یہی اشتراک ہے جو یورپی زبانوں کا رشتہ سنسکرت سے جوڑتا اور انہیں ’ہند یورپی‘ زبانوں کا حصہ بناتا ہے۔

شیئر: