Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ اک نرس تھی چارہ گر جس کو کہیے، مداوائے دردِ جگر جس کو کہیے​

فارسی زبان میں نرس کو ’مرہم گذار‘ بھی کہتے ہیں۔ فوٹو: فری پک
میری قسمت کہ وہ اب ہیں مرے غم خواروں میں 
کل جو شامل تھے ترے حاشیہ برداروں میں
یوں تو یہ شعر جناب انور مسعود کا ہے، مگر شعر پر چھائے سنجیدگی کے سائے اپنے مالک کی ملکیت سے انکاری ہیں۔ وجہ اس کی خود شاعر کی باغ و بہار شخصیت اور پُر مزاح طبیعت ہے۔
پھر یہ کہ ایک دنیا انہیں پنجابی زبان کے قادر الکلام اور مزاح گو شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے، نتیجتاً ان کا سنجیدہ اردو کلام پس منظر میں چلا گیا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ انور مسعود صاحب کا ہر شعر قہقہہ بار اور ہر نظم زعفران زار کا منظر پیش کرتی ہے، مگر اس وقت شعر بالا کی سنجیدگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے، سو اس صورتحال سے صرفِ نظر کرتے اور شعر میں وارد لفظ ’حاشیہ بردار‘ کی بات کرتے ہیں۔
عربی زبان کے ’حاشیہ‘ اور فارسی کے ’بردار‘ سے مرکب اس ترکیب میں ’حاشیہ‘ کے معنی کنارہ اور دامن کے ہیں۔ اسی رعایت سے انگریزی کا ’footnote / فوٹ نوٹ‘ اردو میں ’حاشیہ‘ کہلاتا ہے۔ 
جہاں تک ’بردار‘ کی بات ہے تو اس کے معنی ’اٹھانے والا‘ کے ہیں، اسے عَلم بردار(پرچم اٹھانے والا)، باربردار (وزن اٹھانے والا) اور ناز بردار (ناز اٹھانے والا) کی سی تراکیب سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ یوں ’حاشیہ بردار‘ کے معنی ہوئے ’دامن اٹھانے والا۔‘ 
دراصل یہ دامن اٹھانے والے ’حاشیہ بردار‘ کہلاتے ہیں۔
خدمت کی اس نوعیت نے ’حاشیہ بردار‘ کے مجازی معنی میں نوکر چاکر کے علاوہ درباری، خوشامدی اور ہم نشین وغیرہ کو بھی شامل کر دیا۔

قاعدے کی رو سے ’کنیز‘ کے لفظی معنی چھوٹی لڑکی کے ہیں۔ فوٹو: فری پک

اب ان معنی کی رعایت سے ماہرعبدالحی صاحب کا شعر ملاحظہ کریں: 
کون آواز اٹھائے گا ہمارے حق میں
سب ترے حاشیہ بردار نظر آتے ہیں
اس سے قبل کہ آگے بڑھیں، کچھ ذکر ’غلام و کنیز‘ کا ہوجائے۔ غالباً ’غلام‘ کے ذکر میں پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ عربی میں ’غلام‘ کے لفظی معنی ’نوجوان لڑکا‘ ہیں، جب کہ ’غلام‘ کے مجازی معنی نوکر اور خادم کے ہیں۔
’کنیز‘ فارسی لفظ ہے، اس لفظ کا اطلاق خدمت پر مامور لڑکی اور عورت پر ہوتا ہے۔ ’کنیز‘ کے جُزاول ’کَن‘ کی اصل لفظ ’کنیا‘ ہے۔
فارسی زبان کی قدیم صورت ’اوستا‘ میں دوشیزہ کو ’کنیا، کینین اور کینیکا‘ کہا جاتا تھا، جب کہ زنِ نو خیز کے معنی میں ’کنیا‘ کا لفظ سنسکرت میں بھی موجود ہے، اور اس کے زیر اثر ہندی میں آج بھی برتا جاتا ہے۔
ہندی افسانوی ادب میں جان سے مار دینے والی جاسوس حسینہ کے لیے ’وِش َکنِّیا‘ کی اصطلاح عام استعمال ہوتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ’کنیا‘ سے لفظ ’کنیز‘ کیسے وجود میں آیا؟ تو عرض ہے کہ فارسی میں علاماتِ تصغیر میں ایک لفظ ’یزہ/یژہ‘ ہے، اسے پاکیزہ اور دوشیزہ کے سے الفاظ  میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ خیر ’یزہ‘ کی دوسری صورت ’ییز‘ ہے۔ چنانچہ جب ’کنیا‘ کے ’کَن‘ کے ساتھ ’ییز‘ کا لاحقہ لگا تو اس نے ’کنیز‘ کو جنم دیا۔
قاعدے کی رو سے ’کنیز‘ کے لفظی معنی چھوٹی لڑکی کے ہیں، تاہم اصطلاح میں اس کا اطلاق خدمت پر مامور ہر عمر کی صنفِ نازک پر کیا جاتا ہے۔

اردو کی حد تک ’پرستار‘ کے معنی عاشق اور چاہنے والے کے ہیں۔ فوٹو: فری پک

اس سے پہلے کہ ’کنیز‘ کے ایک دلچسپ اطلاق پر بات ہو، اس لفظ کی رعایت سے غلام محمد قاصر کا شعر ملاحظہ کریں:
سایوں کی زد میں آ گئیں ساری غلام گردشیں
اب تو کنیز کے لیے راۂ فرار بھی نہیں
’کنیز‘ کا تعلق خدمت سے جُڑا ہے، چوں کہ ہسپتال میں مریض کی خدمت کا یہ فریضہ ’nurse/ نرس ‘ ادا کرتی ہے، سو مجازاً اسے بھی ’کنیز‘ کہتے ہیں۔
برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ جدید فارسی میں نرس کو ’پرستار‘ کہا جاتا ہے، ممکن ہے کہ آپ کو یہ بات کچھ عجیب معلوم ہو، اس لیے کہ اردو کی حد تک ’پرستار‘ کے معنی عاشق اور چاہنے والے کے ہیں۔
اگر آپ ایسا سوچ رہے ہیں تو غلط نہیں ہیں، اس لیے کہ ’پرستار‘ کے دیگر معنی میں عاشق و عشّاق بھی داخل ہیں۔
اصل میں ’پرستار‘ فارسی مصدر ’پرستیدن‘ سے متعلق ہے، اور ’پرستیدن‘ کے قدیم معنی ’خدمت کرنا‘ کے ہیں۔ اسی خدمت کی نسبت سے اگر نرس کو ’پرستار‘ کہا گیا تو تعلیمی اداروں اور فوجی بیرکوں میں قائم علاج معالجہ اور دیکھ بھال کی جگہ کو ’پرستار خانہ‘ پکارا گیا۔
فارسی ہی میں نرس کو ’مرہم گذار‘ بھی کہتے ہیں، جب کہ اس لفظ کا اطلاق ’غم گذار‘ پر بھی ہوتا ہے۔
اب ’نرس‘ کی تعریف میں لکھی گئی اسرار الحق مجاز کی شہکار نظم ’نورا‘ کا ایک خوبصورت شعر ملاحظہ کریں، یقین ہے کہ اس شعر کے زیرِ اثر مکمل نظم آپ خود تلاش کرلیں گے:
وہ اک نرس تھی چارہ گر جس کو کہیے​
مداوائے دردِ جگر جس کو کہیے​

شیئر: