Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’گوروں کا دیسی بِگ باس‘، برطانوی وزیراعظم کی تقرری پر انڈیا میں خوشی کی لہر

رشی سونک کے برطانیہ کا وزیراعظم بننے کی خبر انڈین میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں سیاست دانوں سے لے کر عام آدمی تک سب ہی برطانیہ کے نئے وزیراعظم رشی سونک کے عہدہ سنبھالنے کو ’خوشی اور فخر کا لمحہ‘ قرار دے رہے ہیں کیونکہ رشی سونک برطانیہ کی تاریخ کے پہلے ہندو غیر سفید فام وزیراعظم ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق 42 سالہ رشی سونک انڈین نژاد والدین کے ہاں انگلینڈ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین مشرقی افریقہ سے لگ بھگ چھ عشرے قبل برطانیہ آئے تھے جبکہ ان کے اجداد کا تعلق پنجاب سے تھا۔
رشی سونک کی اہلیہ اکشتا مورتی ایک فیشن ڈیزائنر ہیں اور وہ انڈین ارب پتی نارایانا مورتی کی بیٹی ہیں۔
رشی سونک کے وزیراعظم بننے کی خبر کو انڈین میڈیا نے اپنی شہ سرخیوں میں جگہ دی ہے۔
انڈیا میں ’دھرتی کا بیٹا سلطنت کا حکمران بن گیا‘ اور ’برطانویوں کو دیسی ’بگ باس‘ مل گیا‘ جیسی شہ سرخیوں سے خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے اور ایسا برطانیہ کے نو آبادیاتی راج کے خاتمے کے ٹھیک 75 برس بعد ہو رہا ہے۔
انڈیا کی حکمراں جماعت بھارتیا جنتا پارٹی(پی جے پی) کے ترجمان سدھانشو مِتل نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی انڈین شہری کے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کا موقع نہیں ہو سکتا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ دنیا ہندوؤں کو تسلیم کرنے لگی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں انڈین شہریوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ نہ کیا ہو۔ برطانیہ ہر انڈین کے تصور کا لازمی حصہ ہے کیونکہ اس نے عشروں تک یہاں حکمرانی کی ہے۔‘
رشی سونک کی برطانیہ کا وزیراعظم بننے کی خبر ایسے وقت میں آئی ہے جب انڈیا سمیت دنیا بھر میں ہندو اپنا سالانہ تہوار دیوالی منا رہے ہیں اور یوں ان کی خوشی دو چند ہو گئی ہے۔

رشی سونک برطانیہ کے پہلے غیر سفید فام وزیراعظم ہیں۔ (فوٹو: روئٹرز)

برطانیہ میں موجود میڈیا اور پبلشنگ ہاؤس ’انڈیا آئی این سی‘ کے چیف ایگزیکٹو منوج لدوا نے کہا کہ ’آج کے دن کی ایک علامتی حیثیت ہے۔ آج ہندوؤں، سکھوں اور جین مت کے پیروکاروں کے لیے بڑا دن ہے اور ڈیوڈ کیمرون کے بیان کے ٹھیک سات برس بعد آج ہمارے پاس ایک انڈین نژاد برطانوی وزیراعظم آیا ہے۔‘
واضح رہے کہ سات برس قبل برطانیہ کے سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے انڈین وزیراعظم نریندر موودی کے لیے منعقد ایک استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ وقت زیادہ دور نہیں کہ ڈاؤننگ سٹریٹ میں ایک برطانوی انڈین وزیراعظم بیٹھا ہوگا۔‘
منوج لدوا نے مزید کہا کہ ’رشی سونک ہماری کہانی ہیں۔ ایک بچہ برطانیہ میں پناہ گزین جوڑے ہے ہاں پیدا ہوتا ہے اور وہ سخت محنت اور توجہ سے اسے بہتر زندگی کے اسباب مہیا کرتے ہیں۔ اسے اچھی اقدار اور تعلیم دیتے ہیں۔ اور پھر ایک دن وہ اس ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کے بااثر ترین رہنماؤں کی صف میں بھی شامل ہو جاتا ہے۔‘
انڈیا کی مشرقی ریاست بہار کے ایک تاجر شیو شنکر پرشاد نے عرب نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہم سب کے لیے فخر کا لمحہ ہے۔ برطانویوں نے ہم پر دو سو برس تک حکمرانی کی اور اب ان کا حکمران ایک انڈین ہے۔‘

’برطانیہ میں مذہب، نسل نہیں بلکہ شہری ہونا اہم ہے‘

دوسری جانب مبصرین زیادہ حقیقت پسندی سے ایک خبر کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسے علامتی فتح قرار دینے کی بجائے ایک اقلیتی گروپ سے تعلق رکھنے والے شخص کی کامیابی کی مثال کی خود انڈیا کو پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔
انڈیا کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے تاریخ  کے پروفیسر ادتیہ مکھرجی نے عرب نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’رشی سونک کے برطانوی وزیراعظم بننے کا یہ مطلب نہیں کہ اب برطانیہ پر انڈیا کا راج ہے۔‘
’اس سے ایک ہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ برطانوی سماج زیادہ بہتری اور رواداری کی جانب بڑھا ہے۔ یہ بھی واضح ہوا کہ وہاں آپ کا مذہب یا نسل اہم نہیں بلکہ یہ اہم ہے کہ آپ اس ملک کے شہری ہیں۔‘

شیئر: