Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی سندھ میں بھی متحرک، ’مضبوط ہونے میں وقت لگے گا‘

طلعت حسین کے مطابق سندھ میں پاکستان تحریک انصاف اب تک تیاریاں کرتی نظر نہیں آرہی (فوٹو: اے ایف پی)
چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران کی لانگ مارچ کی کال کے بعد پی ٹی آئی سندھ میں بھی متحرک ہوگئی ہے اور سندھ سے قافلے لاہور روانہ کرنے کی تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔
اتحادی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی ملک بھر میں اپنے کارکنان کو متحرک کر رہی ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں پاکستان تحریک انصاف کے پاس صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستیں تو ہیں، لیکن منظم تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے عمران خان کی جماعت کو سندھ میں مشکلات کا سامنا ہے۔
سینیئر صحافی رفعت سعید کے مطابق ’کراچی سمیت سندھ کے دیگر علاقوں میں پی ٹی آئی کے کامیاب جلسے تو رپورٹ ہوئے ہیں، لیکن تنظیمی سسٹم فعال نہ ہونے کی وجہ سے ماضی میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی کئی تقاریب میں خلاف توقع حاضری رہی ہے۔ اور عمران خان کی نااہلی کے فیصلہ پر کیے جانے والے احتجاج میں بھی تحریک انصاف کراچی خاطر خواہ عوام کو باہر لانے میں ناکام نظر آئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں تین پروگرام ایسے گزرے ہیں جن میں پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی قیادت کی توقعات کے برعکس ہی عوام نکلے ہیں، جبکہ مکمل تیاری اور کوشش کے باوجود بھی دو پروگرامز میں عوام کی خاطر خواہ تعداد شامل نہیں ہوسکی ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کا تنظیمی سسٹم کن بنیادوں پر ہے؟

پاکستان تحریک انصاف سندھ کے مطابق پی ٹی آئی سندھ میں صوبے، شہر اور پھر اضلاع کی سطح پر کام کرتی ہے۔ اضلاع میں ٹاؤن، یوسی اور وارڈ کی ذمہ داریاں دی جاتی ہے۔ کراچی سمیت سندھ بھر میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان اور ذمہ داران اسی تنظیمی ڈھانچے کے تحت کام کرتے ہیں۔
سینیئر صحافی طلعت حسین کے مطابق کراچی سمیت سندھ میں پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی کال پر اب تک تیاریاں کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کی بینادی وجہ پاکستان تحریک انصاف کا مضبوط تنظیمی ڈھانچہ نہ ہونا ہے۔ یہاں موجود کئی رہنما اس کال پر فعال ہوتے نظر نہیں آئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ عمران خان کے خلاف فیصلہ آنے پر بھی تحریک انصاف کراچی کی قیادت عوام کو باہر نکالنے میں ناکام رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی سمیت سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے چاہنے والے بڑی تعداد میں موجود ضرور ہیں، لیکن جو طبقہ عمران خان کے جلسوں میں آتا ہے اس کے لیے اس طرح کے احتجاج کی کال پر نکلنا مشکل ہے۔ اس کے علاووہ تنظیمی نظام میں کمی ہونے کی وجہ ماضی کے تجربات بھی بہتر نہیں رہے ہیں۔
طلعت حسین کے مطابق اس سے قبل جب عمران خان کی کال پر کراچی سمیت سندھ بھر سے عوام اسلام آباد گئے تھے تو انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جلوس کی شکل میں جانے والے کارکنان اور ذمہ داران اسلام آباد میں بے یار و مدد گار تھے۔
بعد ازاں لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے گھروں میں واپسی کے انتظامات کیے تھے۔ اس لیے اس بار خواتین کارکنان سمیت دیگر کارکنان عمران خان کی کال پر لاہور جانے میں دلچسپی کم لے رہے ہیں۔

فاروق معین کے مطابق سندھ سے کوئی بہت بڑا قافلہ اس احتجاج کا حصہ بنے گا یہ تو شاید درست نہیں ہوگا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

سینیئر تجزیہ کار فاروق معین نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی فین فالوونگ ضرور ہے، لیکن کراچی سمیت سندھ میں ان کی تنظیم کو مضبوط ہونے میں ابھی وقت لگے گا۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ’جلسے جلوسوں میں لوگ عمران خان کو دیکھنے اور سننے کے لیے ضرور آتے ہیں، لیکن احتجاج کے لیے نکلنا شاید ان کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ ماضی میں بھی سندھ سے تحریک انصاف کوئی خاص تعداد میں لوگوں کو احتجاج میں نہیں لے جاسکا تھا۔ البتہ کچھ رہنما ضرور موجود ہیں جو اپنے وسائل اور تعلقات کی بیناد پر لوگوں کو لے کر جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا کہ سندھ سے کوئی بہت بڑا قافلہ اس احتجاج کا حصہ بنے گا یہ تو شاید درست نہیں ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے لانگ مارچ کی کال دی ہے کیونکہ ان کے پاس اب کوئی آپشن موجود نہیں تھا۔ اور پھر سینیئر اینکر ارشد شریف کی موت کے بعد عمران خان کے بیانیے کو مزید ہمدردری ملی ہے اور لوگ اس وقت چارج ہیں۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی قیادت مارچ کے اعلان کے بعد کارکنان کو متحرک کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’عمران خان کے لانگ مارچ کے اعلان سے ہی مخالفین کی کانپیں ٹانگنا شروع ہوگئی ہیں۔ ہمارے مارچ میں سرکاری ملازمین، دیہاڑی پر کارکنان اور پولیس شامل نہیں ہوں گے۔ مارچ میں کسی ڈی سی، ادارے یا افسران سے پیسے بھی نہیں لیے جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حقیقی مارچ سندھ کی پیپلز پارٹی سے آزادی بھی ثابت ہوگا۔ سندھ کے عوام بھی آزادی کا جشن منائیں گے۔

شیئر: