Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ڈرامہ سیریل وبال: ’خواہشات کے پیچھے بھاگنے والوں کے لیے ایک سبق‘

ڈرامے میں انعم کا کردار سارہ خان نے نبھایا ہے جس کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے (سکرین گریب)
ڈرامہ سیریل ’وبال‘ کو یوں تو بہت پذیرائی مل رہی ہے لیکن سوشل میڈیا پر کچھ لوگ یہ تنقید کرتے بھی نظر آئے ہیں کہ ڈرامے میں لڑکیوں کے حوالے سے اس مخصوص سوچ کو پروموٹ کیا گیا ہے کہ وہ ’گولڈ ڈگر‘ ہوتی ہیں۔
اردو نیوز نے ڈرامے کی لکھاری قیصرہ حیات سے بات چیت کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس کہانی سے لوگوں کو کیا سمجھانا چاہتی ہیں۔
قیصرہ حیات نے بتایا کہ ’آج کل کی لڑکیاں اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتی ہیں اگر جائز ناجائز کے تصورات کلئیر نہ ہوں تو مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ لڑکیوں کو شعور ہونا چاہیے، ان ساری چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے انعم کا کریکٹر لکھا۔‘
ڈرامے میں انعم کا کردار سارہ خان نے نبھایا ہے جس کا تعلق ایک مڈل کلاس گھرانے سے ہے۔ انعم کو زندگی سے بھرپور ایک ایسی لڑکی دکھایا گیا ہے جس کے کچھ خواب ہیں اور وہ ہر قیمت پر اپنی خواہشات کو پورا کرنا چاہتی ہے۔
انعم کے کردار کے حوالے سے قیصرہ حیات نے بتایا کہ ’انعم بری لڑکی نہیں ہے وہ شاطر چالاک مکار نہیں ہے بس خواہشات کے ہاتھوں ماری ہوئی ہے۔ وہ اچھی زندگی گزارنا چاہتی ہے، امیر لڑکیوں سے دوستی کرتی ہے غریبوں کو منہ نہیں لگاتی لیکن یہ لڑکی اپنی تائی کے ہاتھوں ٹریپ ہوجاتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’یہ تو قدرتی بات ہے کہ جو چیز انسان کے پاس نہ ہو وہ اس کی خواہش کرتا ہے۔ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کی لڑکیاں امیر لڑکیوں کے موبائل اور ان کی اچھی ڈریسنگ سے متاثر ہوتی ہیں۔‘

قیصرہ حیات نے بتایا کہ ’انعم بری لڑکی نہیں ہے وہ شاطر چالاک مکار نہیں ہے بس خواہشات کے ہاتھوں ماری ہوئی ہے (فوٹو: سکرین گریب)

انہیں یہ ڈرامہ لکھنے کا خیال کیسے آیا اس سوال کے جواب میں قیصرہ حیات نے بتایا کہ انہوں نے اپنے اردگرد بہت سے ایسے کیسز دیکھ رکھے تھے جن میں لوگوں کو مجبور ہو کر انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔
’ہمارے سکول کی ایک آیا تھی جو نہایت ایماندار تھی۔ اس کا ڈیڑھ دو مرلے کا گھر تھا ایک دن وہ میرے پاس آئی اور بتایا کہ میں گھر فروخت کرنا چاہتی ہوں آپ لے لیں۔ میں نے پوچھا کہ آخر مسئلہ کیا ہے؟ تو پتا چلا کہ اس نے بیٹی کی شادی کے لیے سود پر پیسے لے رکھے تھے۔‘
انہوں نے بتایا نکہ ’بیٹی کو طلاق بھی ہو گئی اور سود کی رقم اتنی بڑھ گئی کہ اس عورت نے گھر اونے پونے داموں فروخت کرکے پیسے اس کے حوالے کر دیے اور کچھ عرصے کے بعد وہ خود بھی مر گئی۔ لہذا کچھ واقعات ایسے ہوتے ہیں جو آپ کے ذہن پر انمٹ نقوش چھوڑدیتے ہیں۔ میں نے اس آئیڈیا پر مومنہ درید سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ کہانی اچھی ہے اس پر لکھنا شروع کریں۔‘
قیصرہ نے بتایا کہ سود پر پیسے لینے دینے کا کام زیادہ تر مرد کرتے ہیں اگر میں صرف مردوں پر ہی کہانی رکھتی تو کہانی بہت زیادہ خشک ہوجاتی اس لیے مجھے انعم کے کردار کو بھی شامل کرنا پڑا۔‘

ڈرامے کی لکھاری نے بتایا کہ’اس کہانی سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ضرورتیں پوری کرنے کے لیے غلط راستے پر نہ چلیں۔‘ (سکرین گریب)

ڈرامے میں انعم کی بہن کا کردار بہت متوازن دکھایا گیا ہے جو اپنی بہن سے یکسر مختلف ہے۔ ڈرامے کی لکھاری قیصرہ حیات نے بتایا کہ ’انعم کی بہن کا کردار کہانی کے لیے بہت ضروری تھا اس لیے کہ ہم دونوں پہلو دکھانا چاہتے تھے۔ اگر صرف انعم کا کریکٹر دکھایا جاتا اور پازیٹیو کریکٹر نہ دکھاتے تو کہانی میں ایک جھول رہتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس کہانی سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ضرورتیں پوری کرنے کے لیے غلط راستے پر نہ چلیں۔‘
انعم کے کردار کے لیے سارہ خان کا انتخاب کیوں کیا، اس سوال کے جواب میں قیصرہ نے بتایا کہ ’سارہ خان کی سلیکشن یا کاسٹنگ میں میرا کوئی کردار نہیں ہے۔ جہاں تک اس کے گیٹ اپ کی بات ہے تو میں نے ایسا نہیں لکھا تھا۔ میں خود حیران ہوئی سارہ کا گیٹ اپ دیکھ کر،انہوں نے اس کو ماڈرن ٹچ دے دیا ہے۔‘
قیصرہ کہتی ہیں کہ ہماری سوسائٹی میں زیادہ تر عورتیں ہی ڈرامہ دیکھتی ہیں اور جب ہم لو افئیرز اور بنتے ٹوٹتے رشتے دکھاتے ہیں تو عورتیں اس سے خود کو ریلیٹ کرتی ہیں۔ اگر ہم کوئی نیا آئیڈیا لے کر آتے ہیں تو لوگ جلدی قبول نہیں کرتے۔‘

شیئر: