Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

26 نومبر کو راولپنڈی میں جلسہ، عمران خان کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟

عمران خان نے کارکنوں کو 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کی ہدایت کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے اپنے کارکنوں کو 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کی کال دینے کو بعض حلقے 29 نومبر کی تاریخ سے جوڑ رہے ہیں۔
سنیچر کو تحریک انصاف کا لانگ مارچ راولپنڈی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر تھا جب انھوں نے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے ایک ہفتے بعد کارکنوں کو راولپنڈی پہنچنے کی ہدایت کی۔
دوسری جانب اس اعلان کے بعد وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے صدر مملکت عارف علوی کے حوالے سے بیان نے ان شکوک و شبہات میں مزید اضافہ کر دیا ہے کہ عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ میں ایک ہفتے کے وقفے کا تعلق اس تعیناتی سے ہی ہے۔  
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل نعیم خالد لودھی نے اس معاملے پر اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’یہ تو اندھوں کو بھی نظر آ رہا ہے کہ لانگ مارچ اور اس میں تعطل اور اب 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کے اعلان کا تعلق آرمی چیف کی تعیناتی سے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں رہا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر حکومتی بیانات اور عمران خان کی جانب سے دی گئی تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو بات سمجھ آ جاتی ہے۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’بظاہر عمران خان نے کہا ہے کہ انھیں ڈاکٹرز کی جانب سے فوری طور پر اجازت نہیں ملی۔ ان کی بات پر یقین کر لیا جائے تو ٹھیک ہے لیکن 26 نومبر کے حوالے سے ان کا اعلان واضح نہیں ہے جو بظاہر اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ وہ حکومت کو اور مقتدر حلقوں کو پیغام دے رہے ہیں۔‘  

عمران خان پر فائرنگ کے بعد لانگ مارچ روک دیا گیا تھا جو 10 نومبر کو دوبارہ شروع ہوا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سابق سیکریٹری دفاع نے کہا کہ اس بات میں تو کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے اور اس وقت وزیراعظم کون ہیں یہ بھی سب کو پتہ ہے۔
’بے شک عمران خان کے اس موقف کو کافی لوگ تسلیم کر رہے ہیں کہ موجودہ حکومت اکثریت کی نہیں بلکہ اقلیت کی حکومت ہے لیکن حقائق کی روشنی میں دیکھیں تو وہ بھی سیٹیں لے کر ہی ایوان میں موجود ہیں اور آئینی طور پر وہی حکومت میں ہیں۔‘  
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے تعیناتی پر قانونی طور پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے متنازع بنایا جا سکتا ہے کیونکہ تعیناتی بہرحال ادارے کے اعلٰی افسران میں سے ہی کسی ایک کی ہونی ہے۔
ان کے مطابق ’اگر حکومت مروجہ طریقہ کار، آئین اور روایت سے ہٹ کر کسی فرد کو نوازنے کے لیے مخصوص انداز میں قانون سازی کرے تو  ادارے کے اندر سے بھی اور باہر سے بھی اسے متنازع بنایا جا سکتا ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ حکومت ایسا کوئی قدام کر سکتی ہے کیونکہ فیصلہ سازی میں باقی لوگوں کا بھی کردار ہوتا ہے۔‘  
دوسری جانب بعض حلقوں کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے 26 نومبر کی تاریخ بیک ڈور پر ہونے والے مذاکرات کی وجہ سے ہے۔ عمران خان اس وقت آرمی چیف کی تعیناتی سے زیادہ انتخابات کی تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔  

19 نومبر کو روات کے مقام پر پی ٹی آئی کے قافلے یکجا ہوئے اور جلسہ منعقد کیا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’اس وقت بیک دور ڈپلومیسی جاری ہے۔ عمران خان ان مذاکرات کے ذریعے انتخابات کی تاریخ لینا چاہتے ہیں اور وہ مسلسل دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 26 نومبر کی تاریخ کا براہ راست آرمی چیف کی تعیناتی سے شاید کوئی تعلق نہیں ہے لیکن بالواسطہ وہ دباؤ بڑھا رہے کہ اہم موقع پر راولپنڈی میں اجتماع ہوگا تو حکومت کے لیے مشکل ہوگی۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’عمران خان کے کل کے خطاب میں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے لب و لہجے میں تبدیلی آئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آرمی چیف کے معاملے پر پیچھے ہٹ چکے ہیں کیونکہ انھیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ تعیناتی میرٹ پر ہوگی۔‘  
ڈاکٹر آمنہ کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے کل بھی زیادہ زور انتخابات کے انعقاد پر ہی دیا جس سے یہ بات واضح ہے کہ وہ اس تعیناتی کے موقعے کو اپنے اس مطالبے کو منوانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘  
خیال رہے کہ اس حوالے سے گزشتہ روز اپنے خطاب میں چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے کہا تھا کہ ’میں سارے طاقتور حلقوں سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ ملک میں جس سے بھی پوچھ لیں ہر کوئی آپ سے کہے گا کہ سوائے صاف اور شفاف الیکشنز کے کوئی دوسرا حل نہیں ہے اس دلدل سے نکلنے کا۔‘ 

شیئر: