نوجوانوں میں مقبول ہونے والی ’مون لائٹنگ‘ کیا ہے؟
پیر 21 نومبر 2022 13:37
سوشل ڈیسک -اردو نیوز
’مون لائٹنگ‘ کی جاب اضافی آمدن کے ساتھ تجربہ کے حصول کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
پختہ عمر کے بہت سے افراد کے لیے ’مون لائٹنگ‘ کی اصطلاح شاید 80 کی دہائی میں بروس ویلیز اور سیبل شیفرڈ کی مقبول کامیڈی ڈرامہ سیریز تک محدود ہو لیکن جاب مارکیٹ میں موجود نوجوانوں کے لیے یہ ایک ہی وقت میں کئی ملازمتوں کا دوسرا نام بن گئی ہے۔
مون لائٹنگ یا مون لائٹ کے یہ نئے معانی اتنے مقبول ہوئے کہ متعدد آن لائن ڈکشنریز بھی اسے ’دوسری ملازمت خواہ وہ خفیہ ہو یا ریگولر جاب سے ہٹ کر ہو‘ سے تعبیر کرتی ہیں۔
فری لانسنگ سے وابستہ افراد میں فروغ پانے والے اس نسبتا نئے تصور میں ایک فرد ایک وقت میں متعدد ملازمتیں کرتا ہے۔
باقاعدہ ملازمت اور فری لانسنگ تک تو بات سمجھ آتی ہے لیکن ایک ملازمت کا یہ نام کیسے پڑا؟ کے سوال کا جواب ڈھونڈنے والوں کو تلاش کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ اپنی ابتدائی ملازمت کی آمدن کو ناکافی جان کر امریکیوں نے رات کے اوقات میں دوسری جاب شروع کی تو اسے ’مون لائٹنگ‘ کہا گیا۔

اس پس منظر پر گفتگو کرنے والے افراد کہتے ہیں کہ اگر یہ کیفیت پاکستان میں پیدا ہوئی ہوتی یا اہل ادب کو اس انتخاب کا کا اختیار دیا جاتا تو شاید وہ نئی ملازمت کا نام ’اختر شماری‘ رکھتے۔
’رات میں اضافی یا خفیہ ملازمت‘ کو مون لائٹنگ کہنے والوں نے ایسی جاب کرنے والوں کو فری لانسر سے الگ کیا تو انہیں ’مون لائٹر‘ کا نام دیا گیا۔
شواہد بتاتے ہیں کہ ابتدائی اور درمیانی درجے کی جابز کرنے والوں میں مقبول ہونے والا ملازمت کا یہ نیا تصور اگرچہ بڑے پیمانے پر اداروں میں پسندیدگی یا سند قبولیت حاصل نہیں کر سکا تاہم جاب مارکیٹ میں ہنٹنگ کرنے والوں میں یہ اتنا مقبول ہے کہ صرف ایک ویب سائٹ پر لاکھوں ایسے افراد رجسٹرڈ ہیں جو اس طرح کی ملازمت حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔
مون لائٹنگ کے تصور کے تحت ملازمتوں کی نشاندہی کرنے والے افراد اور اداروں کے مطابق یہ محض اضافی جاب اور مزید آمدن کا ہی ذریعہ نہیں بلکہ آپ کے لیے موقع ہے کہ اپنی موجودہ جاب جاری رکھتے ہوئے کسی نئے شعبے کا تجربہ اپنی سی وی میں شامل کر لیں۔

امریکی یا انٹرنیشنل جاب مارکیٹس کا یہ تصور پاکستانی اور انڈین مارکیٹس میں پہنچا تو یہاں بھی اسے کم وبیش وہی حیثیت ملی جو امریکہ میں بن چکی تھی۔
پاکستان اور انڈیا سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد ان اصطلاحات کو اپنی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں تو کہیں دوسروں سے ان کا مفہوم پوچھتے اور کہیں بتاتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

ایک باقاعدہ ملازمت کے ہوتے ہوئے جس طرح فری لانسنگ نے قبولیت حاصل کی، حتی کہ کام کا یہ انداز بذات خود ایک ’ملازمت‘ جیسی شکل اختیار کر گیا، مون لائٹنگ کو ابھی تک شاید یہ درجہ نہیں مل سکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس انداز کار سے وابستہ افراد یا ان کے اردگرد یہ گفتگو جاری رہتی ہے کہ ایک باقاعدہ ملازمت کے ہوتے ہوئے دوسری ملازمت کرنا کیا اخلاقی طور پر درست ہو سکتا ہے؟
یہ سوال اور اس سے متعلق جوابات سوشل ٹائم لائنز پر آتے ہیں تو مختلف افراد جہاں اس تصور کی حمایت یا مخالفت کرتے ہیں وہیں اس کے اسباب بھی بیان کیے جاتے ہیں۔

مون لائٹنگ پر کبھی تعلیمی اور کبھی عملی پہلو اختیار کرنے والی یہ بحث نئے زاویے اختیار کرتی ہے تو کئی افراد یہ موقف اپناتے ہیں کہ یہ طرز ملازمت صرف جاب ’سکیورٹی سے متعلق نہیں۔ اگر کسی میں یہ صلاحیت ہے تو کیوں نہ کرے؟ کاروباری شخصیات جب ایک وقت میں زائد بزنس کر سکتی ہیں اور انہیں کوئی اخلاقیات کا نہیں کہتا تو یہ بوجھ ملازمین پر کیوں ڈالا جاتا ہے؟

اپنے تبصرے کی حد تک الوک جین ان افراد میں شامل دکھائی دیتے ہیں جو ’مون لائٹنگ‘ جابز کے حامی نہیں۔
اپنی رائے بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’اپنا ذاتی وقت استعمال کرنا ملازم کا اختیار ہے لیکن کوئی فرد ایک وقت میں دو معاملات سے انصاف نہیں کرسکتا۔ ایسے میں خود کو مطمئن نہ کرسکنے والی جاب سے بہتر ہے کہ اس سے الگ ہو کر اپنے شوق کو اختیار کرے۔‘

جھانوی ان افراد میں شامل ہیں جو مون لائٹنگ کے طریقہ ملازمت کو محض آمدن یا قانونی واخلاقی پہلوؤں تک محدود نہیں رکھتیں بلکہ اس عمل کے اسباب تلاش کرتے ہوئے وہ ایمپلائی اور ایمپلائر کے تعلق کو اہم سمجھتی ہیں۔

مون لائٹنگ سے متعلق گفتگو میں شریک افراد جاب مارکیٹ کے بدلتے تصورات اور تقاضوں کو بنیاد بنا کر یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور ضروریات وسہولیات کا بدلنا ایسے ہی مزید تصورات بھی متعارف کرا سکتا ہے۔
’مون لائٹنگ‘ سے جڑی جابز کرنے والے افراد کی ٹائم لائنز دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاملہ جتنا دلچسپ ہے شاید اس پر عمل اتنا آسان نہیں۔