Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا سیاسی تنازعات سے جُڑا کیریئر

سابق وزیراعظم عمران خان نے تسلیم کیا تھا کہ وہ جنرل فیض حمید کا آئی ایس سے تبادلہ نہیں چاہتے تھے۔ (فوٹو: پی ایم ہاؤس)
کور کمانڈر بہاولپور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی قبل از وقت ریٹائرمنٹ کے بعد تنازعات سے جڑا ان کا فوجی کیریئر ختم ہو گیا ہے۔
بطور آئی ایس آئی سربراہ وہ پاکستان کی تاریخ کے متنازع ترین افسران میں شمار کیے جائیں گے۔
 مقامی میڈیا پر کافی دنوں سے ان کی ریٹائرمنٹ کی خبر چل رہی تھی۔ جمعے کو اعلٰی سطحی ذرائع نے بھی اردو نیوز کو اس کی تصدیق کی۔
چکوال سے تعلق رکھنے والے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا تعلق بلوچ رجمنٹ سے ہے۔ اپریل 2019 میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر تقرری کے بعد وہ اس سال جون میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے تھے۔
تاہم اس سے قبل ہی وہ آئی ایس آئی میں ڈی جی سی کے طور پر تنازعات کا شکار ہو چکے تھے۔ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے اپنی سروس مکمل کرکے 22 اپریل 2023 میں ریٹائر ہونا تھا۔

فیض آباد دھرنا میں متنازع کردار

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام پہلی بار 2017 میں اس وقت سامنے آیا جب تحریک لبیک پاکستان نے فیض آباد دھرنے کے ذریعے اسلام آباد کا محاصرہ کیا۔ اس وقت کی مسلم لیگ ن کی حکومت کی جانب سے الیکشن ایکٹ میں ایک متنازع ترمیم کے خلاف پانچ سے 26 نومبر 2017 تک جاری رہنے والا تحریک لبیک کا پُرتشدد دھرنا اس وقت ختم ہوا جب اس وقت آئی ایس آئی کے ڈی جی سی میجر جنرل فیض حمید نے ان کے ساتھ اپنے دستخطوں کے ساتھ معاہدہ کیا۔ حکومت نے ترمیم بھی واپس لے لی تھی تاہم مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اُس وقت کے وزیر قانون زاہد حامد مستعفی ہوں جسے متنازع معاہدے میں منظور کر لیا گیا۔

کورکمانڈر بہالپور تعیناتی سے قبل جنرل فیض کورکمانڈر پشاور بھی تعینات رہے۔ (فائل فوٹو)

تحریک لبیک کے سربراہ مولانا خادم حسین رضوی نے میڈیا کو دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ شہباز شریف اور احسن اقبال سمیت کسی حکومتی شخصیت سے نہ مذاکرات ہوئے اور نہ معاہدہ بلکہ مذاکرات جنرل فیض سے ہوئے اور وہی ضامن بھی ہیں۔ مولانا خادم حسین نے دعویٰ کیا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر دھرنا ختم کرنے کا معاہدہ ہوا تھا۔

قاضی فائر عیسیٰ کیس

جب فیض آباد دھرنے کا کیس سپریم کورٹ میں سنا گیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں حلف کی خلاف ورزی کرنے والے فوجی افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا جس میں میجر جنرل فیض حمید بھی شامل تھے۔ 
وزرات دفاع نے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا تھا کہ ’سیاسی قیادت نے صورتحال پر کنٹرول میں ناکامی پر مسلح افواج کو مدد کے لیے بلایا تھا اس لیے فوج کو کردار ادا کرنا پڑا۔‘
تاہم جسٹس فائز عیسیٰ نے فیصلے میں لکھا تھا کہ ’آئین پاکستان فوج کو سیاسی سرگرمیوں کا حصہ بننے سے روکتا ہے۔ فوج کسی سیاسی جماعت یا شخصیت کی حمایت نہیں کر سکتی۔ اس لیے وزارتِ دفاع اور افواج کے سربراہان اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔‘
بعد میں پی ٹی آئی حکومت نے صدر عارف علوی کی منظوری سے قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس دائر کر دیا جس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثہ جات پر سوال اٹھایا گیا تھا۔
اس ریفرنس کو گزشتہ سال سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ کی اکثریت نے کالعدم قرار دیا تھا ۔ تاہم اس ریفرنس کے دائر کرنے میں بھی جنرل فیض حمید کا نام لیا جاتا رہا۔
اس سال اپریل میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ’قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف ریفرنس لانا ایک غلطی تھی۔‘

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد جنرل فیض حمید نے کابل کا دورہ کیا تھا۔ (فوٹو: سکرین گریب)

سینیٹ الیکشن میں کردار

اگست 2019 میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو انہیں یقین تھا کہ واضح عددی اکثریت کی بنا پر یہ تحریک کامیاب ہو جائے گی۔ اپوزیشن کی جانب سے قائد حزبِ اختلاف راجہ ظفر الحق نے تحریکِ عدم اعتماد پیش کی جس کی حمایت اپوزیشن کے 64 ارکان نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر کی۔
تاہم جب ووٹنگ ہوئی تو صادق سنجرانی کے خلاف تحریک کے حق میں 50 ووٹ آئے جبکہ اس کی کامیابی کے لیے 53 ووٹ درکار تھے۔ صادق سنجرانی کے حق میں 45 ارکانِ سینیٹ نے ووٹ دیا جبکہ ایوان میں حکومتی ارکان کی تعداد 36 تھی۔
اس حیرت انگیز شکست پر متحدہ اپوزیشن کے امیدوار میر حاصل بزنجو کا کہنا تھا کہ اس کا ذمہ دار آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض ہیں جنہوں نے ان کے سینیٹرز پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے کے لیے دباو ڈالا۔ تاہم اس وقت پی ٹی آئی کی قیادت نے اس کی تردید کی تھی۔

نواز شریف اور مریم نواز کی نام لے کر تنقید

حزب اختلاف کے رہنما اس واقعے سے پہلے اور بعد میں جنرل فیض حمید پر عمران خان کی جماعت کے حق میں مداخلت کا الزام عائد کرتے رہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے کے رہنماؤں نے خفیہ اور اعلانیہ کئی بار نواز شریف کے اقتدار سے نکالے جانے اور سزائیں ملنے کا ملبہ فیض حمید پر ڈالا اور اُنھیں مُورد الزام ٹھہرایا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے اقتدار سے محرومی کے ساتھ ساتھ عمران خان کو وزیراعظم بنوانے میں ان کے کردار کا بھی الزام عائد کیا۔ گوجرانوالہ جلسے میں لندن سے ویڈیو خطاب میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے نام لے کر جنرل فیض کو اپنی جماعت کے خلاف سیاسی کردار پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی فیض حمید کا نام لے کر ان پر تنقید کی۔

مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے کئی بار نواز شریف کے اقتدار سے نکالے جانے کا ملبہ جنرل فیض پر ڈالا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

افغانستان میں سامنے آنے والی ویڈیو

جب اگست 2021 میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا تو جنرل فیض حمید بطور آئی ایس آئی سربراہ کابل کے دورے پر گئے۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں کابل کے دورے کے موقعے پر سرینا ہوٹل میں چائے کے ساتھ ان کی ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں وہ انگریزی میں کہہ رہے تھے ’پریشان نہ ہوں، سب کچھ ٹھیک ہو جائےگا۔‘
وہ ویڈیو دنیا بھر میں وائرل ہو گئی اور ان کا دورہ بحث کا موضوع بن گیا۔ یہ سوال بھی اٹھنے لگے کہ ابھی افغانستان کی نئی حکومت بھی نہیں بنی تو ان کے جانے کا اصل مقصد کیا تھا۔
پھر ان کی تصویر کا بھی ذکر ہوا کہ آیا وہ جان بوجھ کر جاری کی گئی یا محض ایک اتفاق تھا۔ 
مبصرین نے اس پر تنقید کی اور اس کو غیر ضروری قرار دیا جس سے پاکستان کے قومی مفاد کو نقصان پہنچا۔

آئی ایس آئی سے ٹرانسفر پر تنازع

جب اکتوبر 2021 میں آئی ایس پی آر کی جانب سے جنرل فیض حمید کی آئی ایس آئی سے پشاور ٹرانسفر کی خبر جاری کی گئی تو اس کے بعد سیاسی حکومت اور فوجی قیادت میں ایک تنازع کھڑا ہو گیا اور وزیراعظم کی طرف سے لیفٹیننٹ جنرل حمید کو آئی ایس آئی سے ریلیز کرنے میں پس و پیش سے کام لیا جاتا رہا۔ اس تنازعے پر میڈیا میں بھی خاصا تبصرہ ہوا اور اسے سول ملٹری تعلقات میں بڑے تناؤ کے طور پر دیکھا گیا اور واضح ہوگیا کہ حکومت اور فوجی قیادت اب ایک پیج پر نہیں۔

جنرل فیض ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر جون 2019 سے نومبر 2021 تک تعینات رہے۔ (فوٹو: پی ایم ہاؤس)

کئی سیاسی تجزیہ کار جنرل فیض حمید کی ٹرانسفر کو عمران خان کی حکومت کی خاتمے میں اہم سنگ میل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اپنی حکومت کے خاتمے بعد اس سال مئی میں ایک پوڈ کاسٹ میں عمران خان نے تسلیم کیا کہ وہ جنرل فیض حمید کا آئی ایس سے تبادلہ نہیں چاہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں گذشتہ جولائی سے پتا چلنا شروع ہو گیا تھا کہ ن لیگ والوں نے ان کی حکومت کے خلاف منصوبہ بنایا ہوا ہے ’یہ جو انھوں نے ابھی کیا ہے یہ تو بہت پہلے سے منصوبہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’اس لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ ہمارا انٹیلی جنس چیف تبدیل ہو جب تک یہ سردیاں نہ گزر جائیں کیونکہ انٹیلی جنس چیف حکومت کی آنکھیں اور کان ہوتا ہے۔

فیض حمید کا فوجی کیریئر

کورکمانڈر بہالپور تعیناتی سے قبل وہ کورکمانڈر پشاور بھی تعینات رہے۔ اس سے قبل وہ ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر جون 2019 سے نومبر 2021 تک تعینات رہے۔
اکتوبر 2021 میں ان کی بطور کور کمانڈر پشاور تعیناتی ہوئی، جس کا چارج انہوں نے نومبر میں سنبھالا، جبکہ دس ماہ کے مختصر عرصے میں ہی انہیں پشاور سے بہاولپور بحیثیت کور کمانڈر ٹرانسفر کر دیا گیا۔
وہ لیفٹیننٹ جنرل کے طور پر جی ایچ کیو میں ایڈجوٹنٹ جنرل کے عہدے پر بھی فائز رہے، جبکہ اس سے قبل راولپنڈی میں ٹین کور کے چیف آف سٹاف، پنوں عاقل میں جنرل آفیسر کمانڈنگ اور آئی ایس آئی میں ڈی جی کاؤنٹر انٹیلی جنس (سی آئی) سیکشن کے طور بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔   

شیئر: