Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دکانیں جلد بند کروانے کا فیصلہ، دو صوبوں اور تاجروں نے مسترد کر دیا

حکومت نے ملک بھر میں مارکیٹیں رات ساڑھے آٹھ بجے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی حکومت نے ملک بھر میں مارکیٹیں رات ساڑھے آٹھ بجے جبکہ شادی ہال 10 بجے بند کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ تاجر برادری نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔
صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی حکومتوں نے بھی وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے عمل درآمد سے انکار کر دیا ہے۔
پنجاب اور خیبر ہختونخوا کی حکومتوں کا مارکیٹیں جلد بند کرنے سے انکار
ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیٖف نے کہا ہے کہ ’توانائی بچت پالیسی پر صوبائی حکومت سے کوئی باضابط مشاورت نہیں کی گئی۔‘
منگل کو ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ’یہ وفاقی حکومت کی پالیسی ہے، دکانیں اور مارکیٹیں جلد بند کرانے پر مشورہ نہیں کیا گیا۔‘
معاون خصوصی کے مطابق ’خیبر پختونخوا حکومت توانائی کی بچت کے لیے کئی اقدامات پہلے سے اٹھا رہی ہے۔‘
’صوبے میں وسیع پیمانے پر سولرائزیشن اور ایل ای ڈی بلب کے استعمال پر پہلے سے کام کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی اس پالیسی پر عمل درآمد کا تاحال فیصلہ نہیں ہوا۔‘
پنجاب کے سینیئر وزیر میاں اسلم اقبال کا کہنا ہے کہ ’وفاقی حکومت کے نے مارکیٹیں اور شادی ہال بند کرنے کا فیصلہ عجلت میں کیا، ہم اسے کسی فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔‘
’وفاقی حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے صوبوں کو اعتماد میں نہیں لیا، تمام فریقین اور چیمبر کے نمائندوں سے مشاورت کے بعد معاملہ کابینہ میں لے کر جائیں گے۔‘
اردو نیوز کے نامہ نگار وسیم عباسی کے مطابق منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے دیگر وزرا کے ہمراہ میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ حکومت نے پاور ڈویژن کی سفارش پر توانائی بچت پلان کے نفاذ کی منظوری دے دی ہے جو فی الفور پورے پاکستان میں نافذ العمل ہوگا۔

میاں اسلم اقبال کا کہنا ہے کہ ’وفاقی حکومت کے عجلت میں کیے گئے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے‘ (فائل فوٹو: سی ایم سیکریٹریٹ)

انہوں نے بتایا کہ ملک بھر میں تمام شادی ہال رات 10 بجے بند ہو جائیں گے جبکہ مارکیٹیں ساڑھے آٹھ بجے بند ہوں گی۔ ’مارکیٹیں، ریستوران اور شادی ہال اگر اس شیڈول کے مطابق چلیں تو 62 ارب کی بچت ہو گی۔
خواجہ آصف نے بتایا کہ ’تاجر برادری سے گفتگو ہوئی ہے اور وہ اس اقدام پر رضامند ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یکم فروری سے فِلامنٹ بلب تیار نہیں ہوں گے جو زیادہ بجلی خرچ کرتے ہیں جبکہ یکم جولائی کے بعد زیادہ بجلی استعمال کرنے والے پنکھے تیار نہیں ہوں گے۔
وفاقی وزیر کے مطابق 29 ہزار میگاواٹ بجلی گرمیوں جبکہ سردیوں میں 12 ہزار میگاواٹ بجلی استعمال ہوتی ہے۔ سٹریٹ لائٹس متبادل کے طور پر چلائی جائیں گی جس سے چار ارب روپے کی بچت ہو گی۔

تاجر طبقے نے حکومتی فیصلہ مسترد کر دیا

منگل کو وفاقی کابینہ کے فیصلوں کے بعد اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کاروباری طبقے کے نمائندگان نے حکومتی اقدامات کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہوئے ان پر تحفظات کا اظہار کیا۔

دیگر شہروں کی بنسبت کراچی میں بازار دیر سے کھلتے اور بند ہوتے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حکومتی فیصلے سے متعلق بات کرتے ہوئے کراچی چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر محمد ادریس نے کہا کہ بزنس کمیونٹی ملک کی موجودہ معاشی اور اقتصادی صورتحال کو سمجھتی ہے مگر ملک کے تمام شہروں کا مزاج الگ الگ ہے اور کراچی میں کاروبار دیر سے کھلتا اور دیر سے بند ہوتا ہے۔
اس حوالے سے کچھ عرصہ قبل ہماری وزیراعلٰی سندھ مراد علی شاہ اور دیگر متعلقہ وزرا سے بات ہوئی تھی اور ہم نے ان سے کہا تھا کہ کراچی میں ہمارے دو مسائل کو حل کیا جائے تو تاجر برادری تعاون کرے گی۔ ایک تو دن میں بجلی نہیں ہوتی اس کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ دوسرا کراچی میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر کیا جائے۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی اس لیے منگل کے فیصلے پر کاروباری طبقے کو تحفظات ہیں اور مشاورت سے اس حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔
مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر کاشف چوہدری نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ وفاقی حکومت کے رات آٹھ بجے دکانیں اور 10 بجے شادی ہال بند کرنے کے فیصلہ کو مسترد کرتے ہیں۔

حکومت نے کہا ہے کہ جلد بازار بند کرنے سے توانائی کی بچت ہو گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بدترین معاشی صورتحال میں کاروباروں کو بند کرنا کسی صورت ممکن نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے ان نمائشی اقدامات سے توانائی کی بچت ممکن نہیں۔ کاشف چوہدری نے کہا کہ حکومت نے زبردستی دکانیں بند کروانے کی کوشش کی تو مزاحمت کا سامنا ہو گا۔ تاجر اپنے کاروباروں پر بجلی کا استعمال کم کر دیں گے مگر کاروبار بند نہیں کریں گے۔
کاشف چوہدری نے کہا کہ حکومت اگر توانائی بچت میں سنجیدہ ہے تو سرکاری سطح پر بجلی کے ضیاع کو روکے۔ حکومت توانائی کے متبادل ذرائع اختیار کرے تاکہ معاشی سرگرمیاں جاری رہ سکیں۔
کراچی میں شادی ہال ایسوسی ایشن کے صدر رانا رئیس نے بھی اپنے ایک بیان میں حکومت کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شادی ہال کا ٹائم 10 بجے کرنا غیر سنجیدہ فیصلہ ہے۔  شادی ہال انڈسٹری اس طرح کے فیصلوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
رانا رئیس کا موقف تھا کہ پنجاب اور سندھ کے شادی ہالز کے اوقات کار الگ الگ ہیں۔
انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ صوبائی حکومتیں اس حوالے سے مناسب فیصلہ کریں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کے اقدام کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کریں گے۔

موسم سرما میں بھی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کیا فیصلے کے مثبت نتائج حاصل ہو سکیں گے؟
معاشی امور کے تجزیہ کار اور سینیئر صحافی خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ اگر سیاسی عزم ہوا تو اس فیصلے کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی مسلم لیگ ن کی وفاقی حکومت نے ایسا فیصلہ کیا تھا کہ مگر سندھ حکومت نے اس حوالے سے تعاون نہیں کیا تھا اس لیے ناکامی ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس دفعہ پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت نے تعاون نہ کیا تو بھی حکومت کی کامیابی کا امکان نہیں ہے۔
خلیق کیانی کے مطابق گرمیوں میں اس طرح کے فیصلے سے ساڑھے تین ہزار میگاواٹ بجلی کی بچت ہو سکتی ہے جبکہ سردیوں میں اس سے ایک ہزار واٹ تک کی بچت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پوری دنیا میں کاروباری اوقات صبح جلدی شروع ہوتے ہیں اور رات جلدی ختم ہو جاتے ہیں اس لیے اس طرح کا فیصلہ برا نہیں ہے۔
اپوزیشن نے اس فیصلے پر تنقید کی ہے۔ پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اور سابق وزیر خزانہ حماد اظہر کا کہنا تھا کہ  پاکستان کو ایک مضبوط معاشی بچاؤ اور بحالی کے منصوبے کی ضرورت ہے۔
(حکومتی) ڈائنوسار غیر ملکی کرنسی کے بڑھتے ہوئے فرق کو پورا کرنے کے لیے صرف راشن، لوڈ شیڈنگ اور مارکیٹ کی جلد بندش کے بارے میں سوچ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس محاذ پر بھی بچت کے دوسرے طریقے موجود ہیں جیسا کہ قیمتوں کا تعین وغیرہ۔

شیئر: