Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک انصاف کے مہنگائی کے خلاف مظاہرے، حکمت عملی کیا؟

پی ٹی آئی کے مطابق 10 جنوری سے عمران خان مظاہروں کی قیادت کریں گے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ ہفتے مہنگائی کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کی کال دی تھی۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے لاہور میں پارٹی عہدیداروں کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کہ یکم جنوری سے ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر مظاہرے کیے جائیں گے۔ 
ان نئے احتجاجی مظاہروں کی کال دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لیڈر شپ کا کہنا تھا کہ 10 جنوری کے بعد عمران خان خود بھی ان مظاہروں کی قیادت کریں گے اور پارٹی کارکنان اپنے اپنے علاقوں میں مظاہرے جاری رکھیں گے۔ 
اس حوالے سے یکم جنوری کو لاہور میں پارٹی کے دفتر سے ایک ریلی نکالی گئی جس کی قیادت پنجاب کی صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کی۔ ان کے علاوہ کوئی بھی تحریک انصاف کی قیادت نہ لاہور میں نظر آئی اور نہ ہی دیگر شہروں میں البتہ شام کے قریب عمران خان نے خطاب کیا جو پارٹی دفاتر میں دکھایا گیا۔ 
خود تحریک انصاف کے میڈیا ونگ نے صرف یاسمین راشد اور لاہور میں تین مقام پر کارکنوں کے اکھٹے ہونے کی تصاویر اور ویڈیوز جاری کیں۔
اس کے بعد پیر منگل اور بدھ کو کسی بھی طرح کا کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی پی ٹی آئی نے کوئی ویڈیوز یا تصاویر جاری کیں اور نہ ہی اس حوالے سے کسی راہنما کا دوبارہ کوئی بیان نشر ہوا۔
کیا پارٹی ورکرز نے احتجاج کی کال پر توجہ نہیں دی؟
تو کیا مظاہروں کا اعلان کر کے تحریک انصاف نے حکمت عملی تبدیل کر لی ہے یا لوگوں نے کال پر توجہ نہیں دی؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے راہنما تحریک انصاف مسرت چیمہ کا کہنا ہے کہ ’یہ کال لوگوں کو تیار رہنے کے لیے تھی۔ پارٹی دفاتر میں مہنگائی کے خلاف لوگوں کو ایجوکیٹ کیا جا رہا ہے۔‘

پی ٹی آئی نے یکم جنوری سے مہنگائی کے خلاف مظاہروں کی کال دی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے بتایا کہ اس وقت پارٹی کی توجہ پنجاب حکومت کے معاملے پر مبذول ہے اور چیئرمین عمران خان کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور طویل اجلاس ہو رہے ہیں۔
’وزیر اعلٰی پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے کی تیاری کر رہے ہیں تو پارٹی لیڈرشپ اس میں مصروف ہے۔ اگر 9 جنوری کو اعتماد کے ووٹ کا معاملہ حل ہو جاتا ہے تو پھر جو مظاہروں کی کال دی گئی ہے اس پر ساری توجہ ہو گی اور اس امپورٹڈ حکومت کو گھر بھیجا جائے گا۔‘
حکمت عملی میں کئی مرتبہ تبدیلی
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان تحریک انصاف نے احتجاج کے حوالے سے کئی مرتبہ حکمت عملی بدلی ہے۔
پارٹی بیانیے کے مطابق یہ احتجاج جلد انتخابات منعقد کروانے کی غرض سے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہے۔ پہلے لانگ مارچ کیا گیا اس کے بعد عمران خان نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا سے ویڈیو خطاب کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ مہنگائی کے خلاف احتجاج کی کال بھی اسی حکمت عملی کا حصہ سمجھی جا رہی ہے۔ 
سیاسی مبصرین کے مطابق میڈیا پر اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے تحریک انصاف کی حکمت عملی دیگر جماعتوں سے زیادہ جارحانہ ہے۔
سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف نے ابلاغ کو جس طرح استعمال کیا اس نے باقی پارٹیوں کو بھی بدلنے پر مجبور کیا۔ مجھے ابھی کا تو نہیں پتا کہ کال دے کر احتجاج کیوں نہیں کیا جا رہا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کی پلیٹ میں بہت کچھ ہے۔‘
’ایک طرف پنجاب اسمبلی کا معاملہ ہے جہاں وزیر اعلٰی اعتماد کا ووٹ لینے کو تیار ہیں تو پارٹی کی ساری توجہ اس طرف ہے۔ ساتھ ہی وہ احتجاج کے ذریعے بھی دباؤ قائم رکھے ہوئے ہیں۔‘

پی ٹی آئی نے حالیہ احتجاج سے متعلق کئی مرتبہ حکمت عملی بدلی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے خیال میں پنجاب اسمبلی والے معاملے کے بعد احتجاج میں تیزی آ سکتی ہے۔
’کچھ بیک ڈور مذاکرات کی بات ہو رہی۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔‘ 
ایک طرف تحریک انصاف نے احتجاج کی کال دی ہوئی ہے تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر بھی ان کا پلہ بھاری دکھائی دیتا ہے۔ عمران خان کے حق میں مسلسل مہم چلائی جا رہی ہے۔
سینیئر صحافی سہیل ورائچ کہتے ہیں کہ ’آج کل سیاست میں دن رات تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں۔ یہ احتجاج کی کالز میں نے بھی سنی تھیں۔ لیکن اس کے بعد کل سارا دن پارٹی اعتماد کے ووٹ کے لیے حکمت عملی پر سر جوڑے بیٹھی رہی کیونکہ وزیر اعلٰی کے تین ووٹ کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔‘
’مجھے تو یہ بھی لگ رہا ہے کہ شاید عدالت کی سماعت سے پہلے اعتماد کا ووٹ ہو ہی نا۔ جیسے ہی تحریک انصاف کو اسمبلی میں رکاوٹ کا سامنا ہو گا تو وہ اپنی توجہ احتجاج پھر مرکوز کر دے گی یہ ان کی سیاست ہے۔ ابھی انہوں نے کال دے کر اصل میں اپنے کارکنوں کو تیار رہنے کا کہا ہے۔‘

شیئر: