پاکستان تحریک انصاف نے گزشتہ ہفتے مہنگائی کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کی کال دی تھی۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اسد عمر نے لاہور میں پارٹی عہدیداروں کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کہ یکم جنوری سے ملک بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر مظاہرے کیے جائیں گے۔
ان نئے احتجاجی مظاہروں کی کال دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی لیڈر شپ کا کہنا تھا کہ 10 جنوری کے بعد عمران خان خود بھی ان مظاہروں کی قیادت کریں گے اور پارٹی کارکنان اپنے اپنے علاقوں میں مظاہرے جاری رکھیں گے۔
مزید پڑھیں
-
حکومتوں کے توانائی کی بچت کے منصوبے کامیاب کیوں نہیں ہوتے؟Node ID: 731306
اس حوالے سے یکم جنوری کو لاہور میں پارٹی کے دفتر سے ایک ریلی نکالی گئی جس کی قیادت پنجاب کی صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے کی۔ ان کے علاوہ کوئی بھی تحریک انصاف کی قیادت نہ لاہور میں نظر آئی اور نہ ہی دیگر شہروں میں البتہ شام کے قریب عمران خان نے خطاب کیا جو پارٹی دفاتر میں دکھایا گیا۔
خود تحریک انصاف کے میڈیا ونگ نے صرف یاسمین راشد اور لاہور میں تین مقام پر کارکنوں کے اکھٹے ہونے کی تصاویر اور ویڈیوز جاری کیں۔
اس کے بعد پیر منگل اور بدھ کو کسی بھی طرح کا کوئی مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا اور نہ ہی پی ٹی آئی نے کوئی ویڈیوز یا تصاویر جاری کیں اور نہ ہی اس حوالے سے کسی راہنما کا دوبارہ کوئی بیان نشر ہوا۔
کیا پارٹی ورکرز نے احتجاج کی کال پر توجہ نہیں دی؟
تو کیا مظاہروں کا اعلان کر کے تحریک انصاف نے حکمت عملی تبدیل کر لی ہے یا لوگوں نے کال پر توجہ نہیں دی؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے راہنما تحریک انصاف مسرت چیمہ کا کہنا ہے کہ ’یہ کال لوگوں کو تیار رہنے کے لیے تھی۔ پارٹی دفاتر میں مہنگائی کے خلاف لوگوں کو ایجوکیٹ کیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس وقت پارٹی کی توجہ پنجاب حکومت کے معاملے پر مبذول ہے اور چیئرمین عمران خان کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ جاری ہے اور طویل اجلاس ہو رہے ہیں۔
’وزیر اعلٰی پرویز الٰہی اعتماد کا ووٹ لینے کی تیاری کر رہے ہیں تو پارٹی لیڈرشپ اس میں مصروف ہے۔ اگر 9 جنوری کو اعتماد کے ووٹ کا معاملہ حل ہو جاتا ہے تو پھر جو مظاہروں کی کال دی گئی ہے اس پر ساری توجہ ہو گی اور اس امپورٹڈ حکومت کو گھر بھیجا جائے گا۔‘
حکمت عملی میں کئی مرتبہ تبدیلی
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان تحریک انصاف نے احتجاج کے حوالے سے کئی مرتبہ حکمت عملی بدلی ہے۔
پارٹی بیانیے کے مطابق یہ احتجاج جلد انتخابات منعقد کروانے کی غرض سے حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ہے۔ پہلے لانگ مارچ کیا گیا اس کے بعد عمران خان نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبا سے ویڈیو خطاب کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ مہنگائی کے خلاف احتجاج کی کال بھی اسی حکمت عملی کا حصہ سمجھی جا رہی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق میڈیا پر اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے تحریک انصاف کی حکمت عملی دیگر جماعتوں سے زیادہ جارحانہ ہے۔
سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’تحریک انصاف نے ابلاغ کو جس طرح استعمال کیا اس نے باقی پارٹیوں کو بھی بدلنے پر مجبور کیا۔ مجھے ابھی کا تو نہیں پتا کہ کال دے کر احتجاج کیوں نہیں کیا جا رہا۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کی پلیٹ میں بہت کچھ ہے۔‘
’ایک طرف پنجاب اسمبلی کا معاملہ ہے جہاں وزیر اعلٰی اعتماد کا ووٹ لینے کو تیار ہیں تو پارٹی کی ساری توجہ اس طرف ہے۔ ساتھ ہی وہ احتجاج کے ذریعے بھی دباؤ قائم رکھے ہوئے ہیں۔‘
