Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وفاق میں حکومت اور صوبوں میں الیکشن، سیاسی منظرنامے پر کیا اثرات ہوں گے؟

سیاسی جماعتوں کے لیے پہلے صوبائی اسمبلیوں اور بعد میں قومی اسمبلی کے انتخابات کے دوران انتخابی مہم چلانا مشکل ہو گا (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دو صوبائی اسمبلیاں تحلیل کیے جانے اور حکمران اتحاد کی جانب سے قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیوں کی مدت مکمل کرنے کے فیصلے کے بعد ملک میں پہلی مرتبہ دو صوبوں میں انتخابات ایسے وقت میں ہوں گے جب وفاقی حکومت موجود ہوگی۔
آئینی اعتبار سے بظاہر اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن پاکستان میں انتخابی دھاندلی اور انتخابات پر اثرانداز ہونے کی حکومتوں کی کوششوں کی وجہ سے اس پیش رفت کو اہم سمجھا جا رہا ہے۔
بعض حلقوں کی جانب سے وفاق میں حکمران اتحاد کو یہ مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ بھی قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دیں۔
وفاقی حکومت قائم رہتے ہوئے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیسا تجربہ ہوں گے اور ملکی سیاست پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ملکی وحدت کے لیے خطرناک ہو گا۔
دوسری جانب سیاسی جماعتوں کے لیے پہلے صوبائی اسمبلیوں اور بعد میں قومی اسمبلی اور دیگر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے دوران انتخابی مہم چلانا مشکل ہو گا۔
جو جماعت بھی پہلے مرحلے میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جیتے گی اگلے مرحلے میں اس کی جیت کے امکانات بھی زیادہ واضح ہو جائیں گے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد احمد نے اردو نیوز سے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی سیاسی اور انتخابی تاریخ میں یہ پہلا تجربہ ہو گا کہ وفاقی حکومت بھی برقرار رہے گی اور صوبہ سندھ اور بلوچستان میں بھی دو صوبائی اسمبلیاں بھی اپنا وجود برقرار رکھیں گی۔‘
’اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل ہو رہی ہیں یا ہو چکی ہیں تو اس کے اثرات اچھے نہیں ہوں گے۔‘
کنور دلشاد احمد کا کہنا تھا کہ ’اس کے پاکستان کی وحدت و سالمیت پر بڑے گہرے اثرات پڑیں گے۔ کیونکہ وفاق میں جو اسمبلی برقرار رہے گی اور پنجاب اور خیبرپختونخوا میں کیئر ٹیکر سسٹم کے تحت انتخابات ہوں گے تو اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بڑی اہم بات ہے کہ جب پنجاب میں صوبائی الیکشن ہوں گے یا خیبرپختونخوا میں الیکشن ہوں گے، وفاقی وزراء اور معاونین خصوصی وغیرہ الیکشن مہم میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔‘
’بڑا اہم اثر یہ ہو گا کہ وفاقی حکومت کے وزراء یا تو تمام اپنے عہدوں سے استعفیٰ دیں تب آ کر الیکشن مہم چلائیں لیکن اگر انہوں نے استعفے نہ دیے تو الیکشن کمیشن کے ضابطۂ اخلاق کی روشنی میں وہ الیکشن کمپین میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اس سے فائدہ اپوزیشن جماعتوں کو ہی ہو گا۔ اب معاملہ یہ ہے کہ کیئر ٹیکر سسٹم کیسے ہوتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان صاحب نے جو کیا اپنی ضد اور انا پرستی کے تحت اسمبلی تڑوا دی ہے اور چوہدری پرویز الٰہی بھی اس سے متفق نہیں تھے لیکن بہرحال وہ کمزور وکٹ پر کھڑے تھے اور عمران خان کا دباؤ وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ انہوں نے اپنا سیاسی مستقبل بھی مدنظر رکھا اور عمران خان کے دباؤ میں آ کر ایک یک سطری لائن لکھ کر گورنر کو بھجوا دی اور گورنر صاحب نے ایک بڑا دانش مندانہ فیصلہ کیا ہے۔‘
’میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ وفاقی حکومت کو اب چاہیے کہ وہ بھی اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے پیچھے ہٹ جائے اور اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ باقاعدہ اپنی مشاورت کرے۔ عمران خان صاحب نے دو اسمبلیاں تحلیل کی ہیں تو اب وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ قومی اسمبلی تحلیل کر دے کونکہ اب اس اسمبلی کا کوئی جواز نہیں رہا۔‘

کنور دلشاد کے مطابق ’چوھدری پرویز الٰہی اسمبلی توڑنے کے معاملے عمران خان سے متفق نہیں تھے لیکن وہ کمزور وکٹ پر کھڑے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’قومی اسمبلی میں 123 کے لگ بھگ پی ٹی آئی کے ارکان مستعفی ہو چکے ہیں۔ وہ اب برائے نام ہی ممبر ہیں۔ قومی اسمبلی کے لیڈر آف اپوزیشن بھی برائے نام ہی ہیں۔ وہ فرینڈلی میچ کھیل رہے ہیں۔ کوئی قانون سازی نہیں ہو رہی۔ مہنگائی ختم نہیں کی جا رہی۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے بہتر یہی ہے کہ شہباز شریف اور ان کی اتحادی جماعتیں بیٹھ کر اپنا فیصلہ کر لیں اور عمران خان کی طرح ہٹ دھرمی نہ کریں۔ قومی اسمبلی کو بھی تحلیل کروا دیں۔ُ
جس طرح کے پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ ہو رہا ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پہلے اور قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد ہوں گے تو یہ صرف اور صرف عمران خان کے فیصلے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔
اس تناظر میں تجزیہ کار اجمل جامی کا کہنا ہے کہ ’جو شخص ملک میں انتخابی سیاست کی کایا پلٹ سکتا ہے، انتخابات میں فائدہ بھی اسی کا ہو گا۔ موجودہ حالات میں جو آثار نظر آ رہے  ہیں، جو جماعت میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات جیتے گی۔ اس کا اثر مستقبل کے قومی اسمبلی کے انتخابات پر بھی پڑے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آپ عمران خان کی سیاست سے اختلاف ضرور کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے مروجہ سیاست کے تمام پیمانے بدل دیے ہیں، جس کی وجہ سے ہی آج ملک میں دو حصوں میں انتخابات کا انعقاد ممکن ہو رہا ہے۔‘

مسلم لیگ نواز نے قومی اسمبلی نہ توڑنے، پنجاب اور خیبرپختونخوا کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

’اگرچہ انڈیا اور کچھ دیگر ممالک میں یہ معمول کی بات ہے لیکن پاکستان میں اس کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اور جو بھی پہلے مرحلے میں کامیاب ہو گا، دوسرے مرحلے میں اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ واضح ہوں گے۔‘
سیاسی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اب سیاسی جماعتوں کو پہلے یا بعد کے انتخابات یا مرحلہ وار انتخابات کے چکر سے نکل جانا چاہیے۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کی سیاسی چالوں کے بجائے ان کے منشور کو سامنے رکھتے ہوئے ووٹ دیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’عمران خان نے سیاسی چال چل کے اگر صوبائی اسمبلی توڑی یا وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرنا چاہتی ہے تو یہ باتیں عوام کے لیے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ عوام کو ان تمام عوامل کو سامنے رکھنا چاہیے جس کی وجہ سے آج ملک کی یہ صورت حال ہے۔ اس لیے انتخابات ایک مرحلے میں ہوں دو میں ہو یا چاروں صوبائی اسمبلیوں کے الگ الگ تاریخوں پر انتخابات ہوں عوام صرف منشور کو دیکھیں۔‘

شیئر: