لفظی نشتر چبھو کر ’’زنانہ بھڑاس‘‘ نکالنے والی ہستی’’ساس‘‘
اپنے بیٹے کا گھر برباد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی، ہر ذی شعور دلہن تحمل کے ذریعے اپنا گھر ٹوٹنے سے بچاتی ہے
- - - - - - - - -- -
نفیسہ زبیر پٹیل ۔ جدہ
- - - - - - - - - -
دیکھا جائے تو شادی کے بعد بیوی کو شوہر کے حوالے سے کئی باتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں جن میں ساس، نندوں اور دیگر رشتہ داروں کی باتیں شامل ہیں جوآئے دن کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں جس میں سرفہرست جملہ یہی ہوتا ہے کہ بہو نے آتے ہی بیٹے کو ماں سے لڑا دیا یا بھائی شادی کے بعد بہنوں اور ماں باپ سے دور ہوگیا،یہ بہو ہے یا جادوگرنی۔زیادہ تر گھرانوں میں ساس نامی شخصیت،نئی نویلی دلہن کو اسی قسم کے لفظی نشتر چبھوکر اپنی ’’زنانہ بھڑاس‘‘ نکالتی ہے ۔ساس کے قلب و ذہن میں اپنی ہم صنف کی دشمنی اس کی کم عمری کے باعث پلتی ہے یا اس کے حُسن وجمال سے حسد کی وجہ سے پروان چڑھتی ہے، اس ضمن میں کوئی بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی تاہم یہ بات یقینی ہے کہ ساس، بہو کے لئے ایک بھیانک وجود ثابت ہوتی ہے جو بہو کی دشمنی میں اتنی آگے نکل جاتی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا گھر برباد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ ایسے میں ہر ذی شعور دلہن ساس کے زہریلے جملے ہنس کر برداشت کرتی ہے اور اسی تحمل کے باعث وہ اپنا گھر ٹوٹنے سے بچا پاتی ہے۔ اصولی طور پر اگر دیکھا جائے تو لڑکے کے گھر والوں اور رشتہ داروں کو اس طرح کے جملے شادی کے بعد نہیں کہنے چاہئیں کیونکہ اس لڑکی کو وہی گھر والے اپنے بیٹے کیلئے پسند کر کے لاتے ہیں ۔
یہ وہی لڑکی ہے، شادی سے قبل جس کی تعریفیں کرکے زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے تھے مگر جیسے ہی شادی ہوتی ہے اسی لڑکی میں انہیں خامیاں نظر آنے لگتی ہیں۔اس کے برعکس لڑکی کو شادی کے بعد یہ سب برداشت کرکے اپنا گھر بچانا پڑتا ہے۔ اگر لڑکی یہ کام نہیں کرپاتی اور جلد ہار مان لیتی ہے یا اگر پہلے دن شوہر کو قابو کرلیتی ہے یا شوہر خود ہی نئی دلہن سے متاثر ہو جاتا ہے تو یہ لڑکی کی قسمت ہوتی ہے ورنہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ والدین اور رشتہ دار اس طرح کی حرکتیں کرکے اس نئے گھر کو وقت سے پہلے برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسے آباد ہوئے چند دن ہی گزرے ہوتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر لڑکی کا شوہر اور دیگر سسرال والے اچھے ہوں تو رشتہ دار ’’بی جمالو ‘‘ کا کردارادا کرتے ہیں اور لڑائی یا پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ رشتہ دارحسد کرتے ہیں کہ آخر یہ لوگ اس طرح ہنسی خوشی کیوںرہ رہے ہیں۔
اس وقت دنیا میںلوگوں کی اکثریت اسی طرح کی سوچ رکھتی ہے اور اسی فلسفے کے زیر اثر ہے۔اگر کہیں لڑکے کے والدین، رشتہ دار اور بہنیں وغیرہ اچھی ہوںتو لڑکی کے گھر والے یا رشتہ دار اس حوالے سے غلط فہمی پیدا کرنے کی بنیاد بنتے ہیںجو آہستہ آہستہ یا انجانے میں گھر تباہ کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر سب طرف سے امن و سکون ہوتا ہے تو لڑکے کے دوست معاملات کی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ وہ لڑکے کو بعض اوقات یہ کہہ کر طیش دلاتے ہیں کہ تم تو شادی کے بعد بیوی کے غلام ہوکر رہ گئے ہو یا اتنا بھی بیوی سے مت ڈرو یا اتنا بھی بیوی سے کیا دبنا کہ اپنا مردانہ وقار ہی پامال کر ڈالا۔ یہی نہیں بلکہ ڈرپوک شوہروں کے لطیفے سنا سنا کر اسے’’ بہادر ‘‘بننے کے مشورے دیئے جاتے ہیں جبکہ ان کے ا پنے گھر کا حال اس سے برا ہوتا ہے مگر وہ اپنے گھر کے ماحول کو بہتر بنانے کے بجائے دوسرے کا گھر برباد کرنے پرتلے ہوتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ آپ اس طرح کی باتوں کو نظر انداز کردیں اور وہی کریں جو آپ کا دل کہتا ہے کیونکہ شادی کے بعدمیاں بیوی کی اپنی ایک زندگی ہوتی ہے جسے کسی صورت خراب نہیں کرنا چاہئے لیکن اکثر’’ نادان دوست‘‘ جو دشمن کا کردار ادا کرتے ہیں، ایسی احمقانہ حرکتیں کرگزرتے ہیں۔ اس حوالے سے یہ کہا جائے کہ شادی کے بعد میاں بیوی کوباہمی مسائل نمٹانے کا موقع دینا چاہئے اورکسی کو اس راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔
بصورتِ دیگر ایک بسے بسائے گھراور خاندان کی تباہی کی ابتداء ہوجاتی ہے ۔ ہر میاں بیوی کو شادی کے بعد اپنی زندگی جینے کا حق ہے کیونکہ شادی کے ابتدائی مہینوں میں نئے نویلے جوڑے کو ایک دوسرے کو سمجھنے ا ور پرکھنے کا موقع ملتا ہے ۔اس میں دوسروں کی دخل اندازی سے بعض اوقات معاملات سدھرنے کی بجائے بگڑنے لگتے ہیں ۔ اس لئے شادی کے بعد دولہا اور دلہن کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے معاملات کو حد میں رکھیں اورباہمی روابط کی’’ مٹھی‘‘ کو جتنا ہوسکے ،بند رکھنے کی کوشش کریں کیونکہ مثل مشہور ہے کہ ’’بند ہومٹھی تولاکھ کی، کھل گئی تو پھر خاک کی۔‘‘ اس حوالے سے آگے کچھ کہنے کی ضرور ت باقی نہیں رہتی کیونکہ عقلمند کے لئے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔