Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کرکٹ و ہاکی جیسی پذیرائی سے محروم، غریبوں کا کھیل’’فٹ بال‘‘

کاش فٹبال کو اس کے شایان شان مقام دیا جاتا کیو نکہ اسکی بنیاد بانیٔ وطن نے رکھی تھی
- - - - - - - - -  - -
تسنیم امجد ۔ ریاض
- - - - - - - -  - -
کھیل کو انسانی زندگی میں اتنی ہی اہمیت حاصل ہے جتنی تعلیم کو ۔ جہاں تعلیم دل و دماغ کو روشن کرتی ہے وہاں کھیل جسم کو چاق و چوبند رکھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے ۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ـصحت مند دماغ، صحت مند جسم میں ہوتا ہے ۔ کھیل سے انسانی عقل و شعورکو جلا ملتی ہے ۔ وطن عزیز میں جس طرح تعلیم کے شعبے کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی، اسی طرح کھیل کے میدان کو بھی نظر انداز کیا گیاہے۔ جب دل چاہا کسی بھی کھیل سے سوتیلوں کا سا سلوک کر ڈالا ۔دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر حالاتِ حاضرہ کی ترجمان ہے کیونکہ احتجاج کی نوبت تب ہی آ تی ہے جب بے بسی کی کیفیت ہو اورکسی طورشنوائی نہ ہورہی ہو۔ کاش فٹبال کو اس کے شایان شان مقام دیا جاتا کیو نکہ اس کی بنیاد بانیٔ وطن نے رکھی تھی ۔ وہ اس کے پیٹرن انچیف تھے ۔ آزادی کے بعد شروع شروع کے دنوں میںیہ کھیل کامیابی سے ہم کنار رہا۔
بانیٔ پاکستان کی وفات کے بعد کسی حد تک ان کے اقوال کے اثرات رہے۔ قائد اعظم کا قول ہے کہ’’کھیلوں کو تعلیم کا اہم جز بنا دینے سے نہ صرف جسمانی طور پر زیادہ طاقتور افراد وجود میں آتے ہیں بلکہ اور بھی فوائد حاصل ہوتے ہیں جو پوری قوم کی ترقی اور خوشحالی کیلئے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ اسی لئے 1950 ء میں فٹ بال کی ٹیم ایران اور عراق بھیجی گئی ۔ پھر 1958 ء میں ٹوکیو ایشین گیمز میں بھی ہم نے شرکت کی۔ نتائج بہت اچھے رہے پھر آرگنائزر زکی سیاست آڑے آئی اورفٹ بال، پاکستان پریمیئر لیگ کی صورت میں بٹ گئی۔ اب بھی پاکستان نیشنل فٹبال ٹیم، ایشین فٹبال کنفیڈریشن کی رکن ہے اس کے علاوہ فیفاکی بھی رکن ہے۔ فٹ بال نہایت دلچسپ کھیل ہے ۔ 90 منٹ کے اس کھیل کو بین الاقوامی سطح پر بے حدپسند کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ا سے غریب کا کھیل کہا جاتا ہے لیکن نجانے کیوں یہ ہاکی اور کرکٹ جیسی پذیرائی سے محروم ہے ۔ عوام میں اسے پسند کیا جاتا ہے۔ گلیوں میں اکثر بچے فٹبال کھیلتے دکھائی دیتے ہیں۔
کالجوں اور ہائی اسکولوں کی لڑکیاں بھی دلچسپی سے فٹ بال ٹیم کی رکن بنتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شروع شروع میں اس کھیل کوبرہنہ پا کھیلا جاتا تھا، اُس دور میں فٹبال شوز پہننے کا رواج نہیں تھا۔ آج کی طرح 50 19ء کی دہائی میں فنڈ نہ ہونے کا رونا رویا گیاتھا۔ اُدھر ڈھاکا کی ٹیم بہت مہارت کی حامل تھی۔بنگلہ دیش بننے سے قبل اس کے کھلاڑی مغربی پاکستان آکر کھیلتے تو عوام کا ہجوم ہوتاتھا ۔ سالانہ مقابلوں کے سبھی منتظر رہتے تھے۔ ہند اور پاکستان کے مابین بھی پہلے میچ میں ہماری کارکردگی بہت حیران کن تھی۔ میچ بغیر کسی گول کے برابر رہا۔ بعدازاں پنالٹی شوٹ آؤٹ پر پاکستان فتحیاب ہوا۔ حالیہ عوامی دلچسپی کے مطابق عوام بارکیلز پریمیئر لیگ، لالیگا اور سرے کی رکنیت میں دلچسپی لے رہے ہیں ۔اس کے علاوہ یو ای ایف اے چیمپیئن لیگ بھی ان کے لئے نہایت اہم ہے لیکن جب عوام کو حکومت یعنی اتھارٹیز کی جانب سے سگنل نہیں ملتا تو وہ احتجاج پر نکل پڑتے ہیں ۔ مایوس ذہنوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔
اس سلسلے میں حکومت کو یہ چاہئے کہ وہ ترقی یافتہ اقوام کی طرح پہلے اس کھیل کو اسکول اور کالجز کی سطح پر بذریعہ حکم نامہ شروع کرائے اور پھر انٹر اسکول میچز صوبائی سطح پرٹمعقد کرائے۔ یہ نہایت کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسی سلسلے میں اکیڈمیاں بھی تشکیل دینے سے نسل نو کا ٹیلنٹ بھرپور انداز میں منظرعام پر آسکتا ہے۔11 کھیلاڑیوں یعنی دونوں اطراف میں 22 کھلاڑیوں کا میچ نہایت دلچسپ رہتا ہے۔ میڈیا اس کھیل میں دلچسپی اور عوامی رجحان کو احسن انداز میں پیش کرکے اتھارٹیز کو باخبر کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 1970 ء میں جب مغربی اور مشرقی حصے کے مابین اختلافات ابھرے تو اس کھیل کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ 1980 ء میں قائد اعظم گولڈکپ اور فیفا ورلڈ کپ کے تحت 1989 ء میں اس پر کچھ توجہ دی گئی۔ کاش وطن عزیز کے کرتا دھرتا عوام کو ان احتجاجی رویوں تک آنے ہی نہ دیں ۔ان کی درخواستوں پر غور کرکے کچھ پیش رفت کرلیں تو حالات میں ہلچل پیدا نہ ہو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں ذہین، محنتی اور باخبر اسکالرزکی بے حد ضرورت ہے۔اس حوالے سے آگہی نصابی کتب کے مطالعے کے علاوہ عملی زندگی میں مسابقتی رجحان سے ہی حاصل ہوگی۔ ٹیموں کے درمیان مقابلہ نہایت صحت مند رجحان ہے۔ یہاں تاریخ کا تھوڑا سا حوالہ ضروری ہے۔
یونانی تہذیب کے عروج کے عہد میں کھیلوں اور جسمانی تربیت کے شعبے ، درسگاہوں سے وابستہ ہوتے تھے۔ سقراط، بقراط ، افلاطون اور ارسطو جیسے فلاسفر وں کے مکتب میں جگہ پانے والے جسمانی طور پر صحت مند اور تن و مند انسان تھے۔ ان کے لئے لازمی تھا کہ وہ جسمانی قوت کے مظاہروں و مقابلوں میں اور ا ن سے متعلق تربیت میں بھرپور حصہ لیں۔ اولمپیا ان لوگوں کا مرکز بن گیا تھا جہاں یونان کے مختلف علاقوں اور شہروں کے کھلاڑی جمع ہوتے اور عام شہریوں کی موجودگی میں اپنی جسمانی قوت اورکمال فن کا مظاہرہ کرتے چنانچہ اہل یونان نے جہاں علم و حکمت کے چراغ جلاکر ذہن انسانی کوآگہی سے ہمکنار کیا وہاں تندرستی اور توانائی کے بھی معیار مقرر کئے اور اولمپک کھیلوں کی صورت میں ایسی شمع روشن کردی جو نہ صرف آج بھی فروزاں ہے بلکہ اس کی اہمیت کا اعتراف زور شور سے کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اہل روما نے بھی اپنے تہذیبی عروج کے دور میں کھیل اور ورزشی اداروں کو اہمیت دی۔ کھیل جذبۂ مسابقت ، ایثار، تحمل ، صبر ، جرأت، چوکسی اور مستعدی جیسے اعلیٰ اوصاف پیدا کرتے ہیں۔ کھلاڑی یقینا انفرادی طور پر اوروں کی نسبت بہتر انسان ثابت ہوتے ہیں ۔ شہری زندگی میں یہ خوبیاں ان کی معاونت کرتی ہیں۔

شیئر: