Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نوجوان فنکارہ جو پرانے محلوں کے گھر، گلیوں اور کہانیوں کے ماڈلز بنا رہی ہیں

پروجیکٹ کو ایک مستقل نمائش میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہیں (فوٹو: عرب نیوز)
جیسے جیسے سعودی شہر تیزی سے بدل رہے ہیں اور جدید ہو رہے ہیں، ایک نوجوان فنکارہ  پرانے محلوں کے گھروں، گلیوں اور کہانیوں کو چھوٹے چھوٹے ماڈلز کی صورت میں دوبارہ تخلیق کر رہی ہیں تاکہ یہ سب تبدیلی کے عمل میں بھول نہ جائیں۔
 20 برس کی شہد نبیل جاد الحق جن کی جڑیں فلسطین سے ہیں اور ان کی پرورش مکہ میں ہوئی ہیں، منظرنامے سے غائب ہوتے ہوئے دیہی زندگی کو محفوظ کر رہی  ہیں، ایسے خوبصورت اور باریک ماڈلز کے ذریعے جو یادداشت، ثقافت اور شناخت کو ظاہر کرتے ہیں۔
ان کا منصوبہ سیان (سی وائی اے این) پرانی یادوں کو ایسا بناتا ہے کہ جیسے آپ انہیں دیکھ سکتے ہیں، ہاتھ لگا سکتے ہیں اور محسوس کر سکتے ہیں۔

ایک مکان صرف دیواریں نہیں بلکہ یہ لمحے اور یادیں ہیں۔ (فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ایک مکان صرف دیواریں نہیں بلکہ یہ لمحے اور یادیں ہیں۔‘
حالیہ برسوں میں مکہ اور جدہ میں پورے پورے محلے نئے اور جدید منصوبوں کے لیے خالی کروا دیے گئے ہیں۔ اگرچہ شہری منصوبہ بندی کے لحاظ سے یہ فیصلے ضروری ہیں لیکن بہت سے لوگوں کے لیے یہ جذباتی طور پر بہت مشکل ثابت ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’مجھے پرانے گھروں اور روزمرہ کی چیزوں سے جو محبت ہے، وہ اس ماحول سے آئی ہے جس میں پلی بڑی ہیں۔ یہ چیز میں میرے کام میں صاف نظر آتی ہے۔‘

وہ لکڑی، گتے، ایکریلیک اور فورم جیسے مواد کے ساتھ کام کرتی ہیں(فوٹو: عرب نیوز)

انہوں نے سب سے پہلا ماڈل اپنے خاندان کے پرانے گھر کا بنایا جو انہوں نے اپنے والد کو ایک سرپرائز کے طور پر دیا۔
’ان کا ردعمل مجھے حیران کر گیا تھا، ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔‘
جادالحق کا اس قسم کے فن سے لگاؤ بچپن سے تھا لیکن گزشتہ چند برسوں میں انہوں نے اسے پیشہ وارانہ طور پر اپنایا۔ اور سیان (سی وائی اے این) کے نام سے ایک ثقافتی، فنکارانہ اور کاروباری منصوبہ شروع کیا۔
وہ لکڑی، گتے، ایکریلیک اور فورم جیسے مواد کے ساتھ کام کرتی ہیں اور باریک نقش و نگار کے اوزاروں کے ساتھ ساتھ جدید تکنیک جیسے تھری ڈی پرنٹنگ بھی استعمال کرتی ہیں۔

کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک چھوٹا سے ماڈل مجھے اتنا جذباتی کر دے گا( فوٹو: عرب نیوز)

ان کے مطابق ’میں صرف یہ نہیں دیکھتی کہ چیزیں کیسی نظر آتی ہیں بلکہ یہ بھی سوچتی ہوں کہ میرا ماڈل لوگوں کو کیسے محسوس کرائے گا۔ دروازے کی آہٹ، کھڑکی سے آتی دھوپ۔۔۔ میں چاہتی ہوں کہ لوگ صرف دیکھیں نہیں بلکہ دل سے بھی اپنے پرانے گھروں کو محسوس کریں۔‘
ان کا منصوبہ سیان صرف سعودی عرب میں بلکہ بیرون ملک بھی خوب توجہ حاصل کر چکا ہے۔ انہیں کویت، متحدہ عرب امارات، یورپ اور یہاں تک امریکہ سے بھی کام کے لیے درخواستیں ملی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پرانے گھروں کی یاد میں جیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انہیں کسی شکل میں دوبارہ محسوس کر سکیں۔
عبدالعزیز الحربی جنہیں ان کے مکہ میں پرانے گھر کا چھوٹا ماڈل تحفے میں ملا، نے کہا کہ ’سچ بتاؤں تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک چھوٹا سے ماڈل مجھے اتنا جذباتی کر دے گا۔‘

حیران اور بہت خوش تھی۔ اس ماڈل نے میری ساری یادیں واپس کیں (فوٹو: عرب نیوز)

’باہر کی سیڑھیوں نے مجھے عید کی صبح، امی کی آواز اور چھت پر جھولتے پنکھے کی یاد دلائی۔ یہ صرف ایک ماڈل نہیں ہے بلکہ ایک زندہ یاد ہے۔ میں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ دیکھو یہ صرف ایک تصویر نہیں، یہ ہمارا اصل گھر ہے۔ کچھ تو رو پڑے، خاص طور پر بزرگ۔‘
سمعیہ جو ام سلیمان کے نام سے جانی جاتی ہیں، جدہ میں اپنے گھر میں 50 سال سے زیادہ عرصہ گزار چکی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ’میں حیران اور بہت خوش تھی۔ اس ماڈل نے میری ساری یادیں واپس کیں، میرے والدین، میرے بھائی اور سب کچھ جیسے میرے سامنے آ گیا۔‘
نوجوان فنکارہ اپنے پروجیکٹ کو ایک مستقل نمائش میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھتی ہیں جو مکہ اور جدہ کے کھوئے ہوئے محلے دوبارہ زندہ کر دے۔

 

شیئر: