Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

واشنگٹن کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں: سعودی وزیر خارجہ

 تیل کی پیداوار میں کمی کے حوالے سے اوپیک کے فیصلے پر موقف درست تھا (فوٹو عرب نیوز)
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے منگل کو ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کے ایک مباحثے میں کہا کہ’ توانائی کی مارکیٹ کے استحکام کو یقینی بنانے کےلیے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ’مضبوط شراکت داری‘ عالمی اقتصادی بحلی میں کلیدی عنصر ہوگا‘۔
العربیہ اورعرب نیوز کے مطابق سعودی وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ’امریکہ کی مخالفت کے باوجود گزشتہ برس تیل کی پیداوار کو کم کرنے کےلیے اوپیک پلس کے فیصلے پر سعودی عرب کا موقف درست تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ ’ سعودی عرب کے واشنگٹن کے ساتھ اب بھی مضبوط تعلقات ہیں۔ چاہے ہمیشہ دونوں متفق نہ ہوں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندہ کے طور پر سعودی عرب کی ذمہ داری ہے کہ وہ تیل کی مارکیٹ کو استحکام فراہم کرتا رہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’امریکہ اور سعودی عرب اس مقصد کے لیے کام کرنے کےلیے بات چیت جاری رکھیں گے‘۔
شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ’ امریکہ کے ساتھ ہماری مضبوط شراکت داری ہے اور ہم شراکت داری کے ذریعے کام جاری رکھیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہمیشہ ہر بار پراتفاق کرتے ہیں۔ کبھی متفق نہیں ہوتے ہیں۔ تیل مارکیٹ کے مسئلے پر ہمارے درمیان اختلاف ہے‘۔
سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ’ سال رواں کے دوران سعودی معیشت زیادہ تیزی سے فروغ پائے گی۔ شرح نمو کا ہدف حاصل  ہوگا۔ سعودی عرب معیشت کے ذرائع میں تنوع پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے‘۔ 

سال رواں کے دوران سعودی معیشت زیادہ تیزی سے فروغ پائے گی(فوٹو عرب نیوز۹

 فیصل بن فرحان نے مزید کہا کہ’ ہم نے ایران کے ساتھ رابطہ کیا ہے اور مکالمے کا طریقہ کار طے کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مکالمہ ہی اختلافات حل کرنے کا مثالی طریقہ ہے‘۔  
انہوں نے کہا کہ’ سعودی عرب  صاف توانائی کی منتقلی کے لیے پر عزم ہے لیکن اس تبدیلی میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔ انرجی سیکیورٹی کے استحکام کے لیے کوشاں ہیں‘۔ 
 ایس پی اے کے مطابق سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے منگل کو ورلڈ اکنامک فورم میں ’جغرافیائی سیاسی  چیلنجوں کے طوفان میں روشن مستقبل‘ کے عنوان سے مباحثے میں حصہ لیا۔ 
شہزادہ فیصل بن فرحان نے ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کے حوالے سے کہا کہ ’ہم نے ایرانیوں سے رابطے کیے ہیں۔ اپنے ایرانی پڑوسیوں کے ساتھ مکالمے کی راہ  پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ مکالمہ ہی اختلافات کے حل  کا بہترین راستہ ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ’ اس بات کا احساس ہے کہ مملکت میں ہم جو کچھ کررہے ہیں اور دیگر افراد خطے میں جو کچھ کررہے ہیں خاص طور پر جی سی سی ممالک اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے اور ترقی پر توجہ مرکوز کرکے اپنے یہاں سرمایہ کاری کے حوالے سے جو اقدامات کررہے ہیں وہ ایران اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے اس بات کی علامت ہے کہ مشترکہ خوشحالی کی خاطر روایتی تنازعات سے بالا ہوکر کام کرنے کا راستہ موجود ہے۔‘

شیئر: