Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہائیکورٹ کے پاس از خود نوٹس کے تحت فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے کہا کہ ’ہائی کورٹ کے فیصلے میں عدالتی دائرہ اختیار سے متعلق کئی خامیاں موجود ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لینے سے متعلق اہم فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ہائی کورٹ از خود نوٹس کا اختیار استعمال نہیں کر سکتی۔ 
ہائی کورٹ کے از خود نوٹس کے اختیار سے متعلق آٹھ صفحات پر مشتمل فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز الاحسن نے تحریر کیا۔ 
اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہائی کورٹ کے سامنے ایک شہری کی درخواست تھی جس میں اس نے پولٹری اشیا کی قیمتوں اور مقدار سے متعلق معاملہ ہائی کورٹ کے سامنے رکھا تھا۔  
’قیمتوں کے تعین کے کیس میں ہائی کورٹ نے ایک سے زائد مرتبہ از خود نوٹس کا اختیار استعمال کیا۔ ہائی کورٹ نے پولٹری اشیا کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ دیا۔ اپیل پر ہائی کورٹ نے ایک بار پھر اختیارات سے تجاوز کیا۔ جس کے بعد درخواست گزار نے سپریم کورٹ کا رخ کیا۔‘ 
عدالت عظمیٰ نے قرار دیا ہے کہ ’آئین کے تحت اشیا کی درآمد و برآمد کا اختیار عدالت کا نہیں بلکہ صرف انتظامی اختیار ہے جو وفاق حکومت کے پاس ہے۔ ہائی کورٹ نے نہ صرف از خود نوٹس کا اختیار استعمال کیا بلکہ انتظامی دائرہ اختیار میں دخل اندازی بھی کی اور اپنے اختیارات سے تجاوز بھی کیا۔‘
عدالت نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں رکھتی۔ صرف سپریم کورٹ کو آرٹیکل 184/3 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار حاصل ہے۔ 
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’ہائی کورٹ کے فیصلے میں عدالتی دائرہ اختیار سے متعلق کئی خامیاں موجود ہیں۔ جیسے پشاور ہائی کورٹ نے لائیو اسٹاک اور پولٹری اشیا کی قیمتوں کے تعین کے لیے کمیٹی کی تشکیل کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے حکومتی اہل کاروں کو معیاری دودھ و دیگر اشیاء کی فروخت یقینی بنانے کے لیے مارکیٹس کے دورے کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔ جو انتطامی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔‘
ہائی کورٹس اختیار نہ ہونے کے باوجود از خود نوٹس کیوں لیتی ہیں؟  
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا اختیار استعمال کرنے پر کوئی فیصلہ دیا ہو بلکہ سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل حافظ احسان کھوکھر کے مطابق سپریم کورٹ نے 1973 کے آئین کے تحت کبھی بھی ہائی کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس استعمال کر کے دیے گئے فیصلے کو قبول نہیں کیا بلکہ اس کو کالعدم ہی قرار دیا گیا ہے۔  

عدالت نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں رکھتی (فوٹو: اے ایف پی)

ماضی قریب میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس انور ظہیر جمالی، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس تصدق جیلانی بھی اس موضوع پر فیصلے دے چکے ہیں۔ ان فیصلوں کا لب لباب یہی ہے کہ اگر کوئی ہائی کورٹ ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے جو اس کو تفویض کیے گئے اختیارات سے باہر ہے تو وہ عدالتی دائرہ کار سے باہر نکل جاتی ہے۔ ایسی صورت میں سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ ایسے فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔ 
اس کیس میں درخواست گزار کے وکیل کامران مرتضٰی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’اختیار نہ ہونے کے باوجود ہائی کورٹس کی جانب سے از کود نوٹس کا اختیار استعمال کرنے کی دو ہی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ وکلا کی جانب سے ہائی کورٹ کے ججز کو مناسب معاونت فراہم نہیں کی جاتی اور انہیں آئینی باریکیوں سے متعلق آگاہ نہیں کیا جاتا اور وہ ایسے فیصلے دے دیتے ہیں جو ان کے اختیار سے باہر ہوتے ہیں۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے جس کے پاس بھی کچھ اختیار آتا ہے اس کے اندر بادشاہ سلامت والی روح آ جاتی ہے اور وہ آئین و قانون کی پرواہ کیے بغیر جو دل کرتا ہے وہ فیصلہ کر دیتا ہے۔ ایسے فیصلوں کے انتظامی امور اورگورنینس پر دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘  
ہائی کورٹ کا اختیار کیا ہے؟  
آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت اگر کوئی شہری بنیادی انسانی حقوق، انتظامی معاملے یا مفاد عامہ کے کسی معاملے پر ہائی کورٹ میں درخواست میں دائر کرتا ہے تو آئین ہائی کورٹ کو صرف اتنا اختیار دیتا ہے کہ وہ جس معاملے پر درخواست دی گئی ہے اس سنے اور اس درخواست میں جو اپیل کی گئی ہے اس کے مطابق فیصلہ دے۔  
حافظ احسان کھوکر ایڈووکیٹ کے مطابق ’ماضی قریب میں اس کی مثال اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے اسلام آباد کے سیکٹرز ایف 14 اور 15 کی بیلٹنگ اور ترقیاتی کاموں سے متعلق دی گئی درخواستوں کے نتیجے میں عدالت کی جانب سے دونوں سیکٹرز کی تمام الاٹمنٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ ہے۔ جس کے خلاف اپیلیں سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔‘ 

شیئر: