Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’سرِ راہ‘ کی ٹیکسی ڈرائیور صبا قمر، ’بالآخر کچھ منفرد آیا ہے‘

ڈرامہ ’سرِ راہ‘ کی کہانی مختلف خواتین کے گرد گھومتی ہے۔ (فوٹو: اے آر وائی ڈیجیٹل)
پاکستان کے نجی ٹی وی چینل اے آر وائی ڈیجیٹل پر شروع ہونے والے نئے ڈرامہ سیریل ’سرِ راہ‘ کی پہلی قسط کو بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔
روایتی انداز سے ہٹ کر بننے والے اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد شائقین کو پاکستانی ڈراموں کا سنہری دور یاد آ رہا ہے جب ڈراموں کی کہانیاں معاشرتی اور سماجی مسائل پر مبنی ہوتی تھیں۔
’سرِ راہ‘ مختلف خواتین کی الگ الگ کہانی ہے جو اپنی روز مرہ زندگی میں مسائل سے دوچار ہیں اور ڈرامے کی اگلی اقساط کی جھلکیوں سے یہ نتیجہ حاصل کیا جا رہا ہے کہ اس میں ابھی مزید مختلف خواتین کے کردار آئیں گے جو اپنی فیلڈ میں مشکلات کا سامنا کرتی ہیں۔

پہلی قسط کی کہانی

’سرِ راہ‘ کی پہلی قسط میں کہانی رانیہ (صبا قمر) نامی ایک لڑکی کے گرد گھومتی ہے جو اپنے والد کے بیمار ہو جانے کے بعد گھر کی ذمہ داری اپنے سر پر لیتی ہے اور اپنے والد کی ٹیکسی چلاتی ہے۔ اس سلسلے میں اسے بھائی، پھوپھی اور اپنے منگیتر کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ ٹیکسی چلانے کے دوران سڑک پر بھی مرد حضرات کی جانب سے ہراسانی اور احساسِ کمتری کو برداشت کرنا پڑتا ہے تاہم رانیہ اپنے فیصلے پر قائم رہتے ہوئے پدر شاہی میں ڈوبے معاشرے میں باوقار روزگار حاصل کرتی رہتی ہے۔
سرِ راہ کی مرکزی کاسٹ میں صبا قمر، منیب بٹ، حریم فاروق، سنیتا مارشل اور صبور علی شامل ہیں۔
اگر سرِ راہ کی پہلی قسط کا جائزہ لیا جائے تو اس میں نہایت عمدگی سے کرداروں کو متعارف کروایا گیا ہے۔
 ڈرامے کا سکرین پلے تیز ہے جس سے کہانی میں جلدی سے پیشرفت ہوتی ہے اور دیکھنے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ ابھی ہی کہانی میں کوئی نیا موڑ آئے گا۔
پہلی قسط میں جہاں صبا قمر ٹیکسی چلاتی ہیں ان تمام مقامات کو اچھی طرح سے چُنا گیا ہے جبکہ ان تمام سِینز میں دکھائے جانے والے کردار بالکل حقیقی ہی نظر آتے ہیں جس سے سکرپٹ اور سکرین پلے مزید جاندار معلوم ہوتا ہے۔ 
صبا قمر کے علاوہ سپورٹنگ کاسٹ جس میں ان کے والدین اور رشتہ دار شامل ہیں ان سب نے اپنے اپنے کردار بخوبی نبھائے ہیں تاہم کہیں نہ کہیں یہ ضرور لگتا ہے کہ کہانی اگر روایتی طریقے سے تھوڑا ہٹ کر ہوتی تو دیکھنے والوں کو مزید تازگی کا احساس ہوتا۔
اس ڈرامے کے بارے میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھی صارفین تبصرے کر رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی ایم این اے مائزہ حیمد نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’صبا قمر کو سلام ہے جنہوں نے سرِ راہ میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ پاکستانی معاشرے کا ایک بڑا المیہ ہے۔ مرد ضرورت کے مطابق کماتے نہیں ہیں اور جب خواتین ملازمت کرنا چاہیں یا معاشی طور پر خود مختاری حاصل کریں تو اس سے مردوں کی انا کو ٹھیس پہنچتی ہے۔‘
مہرُو نے تبصرہ کیا کہ ’آپ سب کو سرِ راہ دیکھنے کی ضرورت ہے اگر ابھی تک نہیں دیکھا تو یہ اس وقت نشر کیے جانے والی اُن چند اچھی چیزوں میں سے ایک ہے اور صبا کی اداکاری شاندار ہے۔‘
عبد اللہ نے لکھا کہ ’اے آر وائی ڈیجیٹل پر چلنے والا ڈرامہ سرِ راہ، یہ ہوتی ہے خواتین کی آزادی، صبا قمر ایک مرتبہ پھر سے ٹرینڈ سیٹ کر رہی ہیں۔ بالآخر کچھ منفرد آیا ہے۔‘
آمنہ ایسانی نے ٹویٹ میں کہا کہ ’میں سرِ راہ کے لیے بہت پُرجوش ہوں اور اس نے کافی متحرک، روشن خیال اور اونچا طرز عمل اختیار کیا ہے۔ سادہ سے انداز میں کئی مسائل کو اُجاگر کیا جا رہا ہے، اگلی قسط کے لیے انتظار نہیں ہو رہا۔‘

شیئر: