Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئی ایم ایف بیوروکریٹس کے اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق ’آئی ایم ایف اب پاکستان میں سٹرکچرل ریفارمز کی طرف بڑھ رہا ہے (فوٹو: وزارت خزانہ)
پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان گزشتہ ایک ہفتے سے مذاکرات کا دور جاری ہے۔ آئی ایم ایف حکام نے مختلف شرائط حکومت پاکستان کے سامنے رکھی ہیں، ان میں سے ایک شرط بیورو کریٹس کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرنا بھی ہے۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے آئی ایم ایف کی شرط پر عملدرآمد کرتے ہوئے سرکاری افسران کے لیے اپنے اثاثے ظاہر کرنے کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ 
ایف بی آر کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق گریڈ 17 سے 22 تک کے تمام سرکاری افسران اور اُن کے اہل خانہ کو اندرون و بیرون ملک میں موجود اثاثے ڈکلیئر کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ 
آئی ایم ایف کی جانب سے جو بھی شرائط رکھی جاتی ہیں عمومی طور پر ان شرائط کو عوامی پزیرائی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ ان شرائط کے بعد براہ راست عوام نے ہی متاثر ہونا ہوتا ہے۔ تاہم بیورو کریٹس کے اثاثے ظاہر کرنے کی شرط کا عوام کی جانب سے خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔  
اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بھی رائے عامہ بن رہی ہے اور چرچے کیے جا رہے ہیں۔
ٹوئٹر صارف چوہدری شہزاد گل لکھتے ہیں ’سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کرنے کی آئی ایم ایف کی شرط انتہائی مناسب اور وقت کی ضرورت ہے۔‘
ڈان ٹی وی سے منسلک سینیئر صحافی ثنا اللہ خان نے وفاقی کابینہ میں اضافے کی خبر کا سکرین شارٹ ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’آئی ایم ایف والو ادھر بھی کوئی شرط لگا دو۔‘
احمد ثنا نامی صارف آئی ایم ایف کے اس مطالبے پر لکھتے ہیں کہ ’میں چاہتا ہوں کہ آئی ایم ایف پاکستان پر حکومت کرے، وہ پاکستانیوں کے لیے وہ کچھ کر رہے ہیں جو ہم نہیں کر پا رہے۔‘
آئی ایم ایف سول بیورو کریٹس کے اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ پہلی مرتبہ کر رہا ہے؟ 
سابق مشیر خزانہ اور ماہر معاشیات ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں ’آئی ایم ایف نے پاکستان سے پہلی بار سول بیورو کریسی کے اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ رکھا ہے، لیکن پاکستان پہلا ملک نہیں جس کے سامنے آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ رکھا ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں بھی آئی ایم ایف مختلف ممالک کے سامنے اس طرح کے مطالبے رکھ چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق آئی ایم ایف کرپشن کے خلاف اس طرح کے مطالبات رکھ سکتا ہے۔{
’اس مطالبے سے ظاہر کرتا ہے کہ اب آئی ایم ایف بھی پاکستان میں کرپشن کو ہائی لائٹ کر رہا ہے۔‘ 
ماہر معاشیات پروفیسر ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف اب پاکستان سے سٹرکچرل ریفارمز کا مطالبہ کر رہا ہے اور آئی ایم ایف نے اپنے موجودہ پروگرام میں یہ شرط رکھی تھی۔‘  
انہوں نے بتایا کہ ’یہ مطالبہ آئی ایم ایف کی جانب سے نیا نہیں ہے، اس پر پہلے بھی بات ہوچکی ہے اور پاکستان نے اس مطالبے پر 2021 میں آمادگی ظاہر کی تھی۔ چھٹے مذاکراتی دور میں حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ سرکاری عہدے رکھنے والے بشمول وفاقی کابینہ ارکان کے اثاثے جنوری 2022 تک ظاہر کیے جائیں گے۔‘
آئی ایم ایف اثاثے ظاہر کرنے کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے؟  
سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے ملک میں قانون بہت کمزور ہے جبکہ نیب کو بھی کمزور کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ منی لانڈرنگ کے تدارک لیے بھی کافی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، اس لیے یہ سارے عوامل بین الاقوامی سطح پر اب قابل قبول نہیں ہیں۔‘

ڈاکٹر سلمان شاہ کے مطابق ’بیورو کریسی کو اثاثے ظاہر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔‘ (فوٹو: وزارت خزانہ)

انہوں نے بتایا کہ ’آئی ایم ایف کے علاوہ  یو این اور ورلڈ بینک کو بھی تحفظات ہیں کہ ملک میں جو فیصلہ ساز ہیں کہ ان کے اثاثے ظاہر کیے جائیں۔‘  
ڈاکٹر سلمان شاہ کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی اتنی بڑی شرط نہیں ہے کیونکہ ایف اے ٹی ایف کے شرائط کے بعد بینکنگ صارفین کی تمام تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔ بیورو کریسی کو اثاثے ظاہر کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ بھی نہیں ہونی چاہیے اگر وہ ایمانداری سے بنائے گئے ہیں۔‘ 
پروفیسر ڈاکٹر ساجد امین کے مطابق ’آئی ایم ایف اب پاکستان میں سٹرکچرل ریفارمز کی طرف بڑھ رہا ہے اور پاکستان کو ٹیکس قوانین میں ترامیم بھی اس حوالے سے کرنا ہوں گی جس کے لیے حکومت پاکستان نے ڈرافٹ بھی تیار کر لیا ہے، جس کے تحت سرکاری افسران کے اثاثے پبلک کیے جائیں گے۔‘  

شیئر: